حضرت معاویہؓ کا اسلامی فتوحات میں کردار

کاتبِ وحی، صحابئ رسول،خلیفۃ المسلمین، جرنیلِ اسلام، فاتحِ عرب وعجم، امام تدبیر وسیاست، محسنِ اسلام ،خال المسلمین حضرت سیدناامیرمعاویہؓ160 ایک عظیم جرنیل،سپہ سالاراورمیدانِ حرب کے نڈرشہسوارتھے،آپؓ160 نے نہ صرف خلفائے سابقین160 کی سرکردگی میں اسلام کے دفاع اور تحفظ کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے،بلکہ خودان160 کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالے سے شان دار دورِ حکومت ہے،جس میں ایک طرف بحر اوقیانوس اور اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیے،ذیل میں اس کی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے:
خلیفۂ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں آپؓ نے مانعینِ زکوٰۃ، منکرین ختم نبوت ، جھوٹے مدعیانِ نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیے، ایک روایت کے مطابق جھوٹا مدعی نبوت مسلیمہ کذاب بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔ ناقدین کوبھی اس کااعتراف ہے کہ آپؓ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے مگر آپ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی کے پیچھے نہ ہوتے۔
خلیفۂ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں، ان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نمایاں حصہ اور کردار رہا ،جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے۔
خلیفۂ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ جہاد وفتوحات میں مصروف رہے اور آپؓ نے رومیوں کو شکستِ فاش دیتے ہوئے طرابلس ، شام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ ، روڑس اور صقلیہ کو حدودِ نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کردیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے،یورپ وافریقہ پر حملہ اور فتح کے لیے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔بحرِروم میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا، جو شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کے لیے کسی وقت بھی بڑا خطرہ بن سکتا تھا، اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی حفاظت ممکن نہ تھی، اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ بھی کرتے رہتے تھے۔خلیفہ وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہؓ نے بڑے جوش خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کردی اور بحری مہم کا اعلان کردیا ،چناں چہ جذبۂ جہاد سے سرشار مجاہدین شام کا رخ کرنے لگے۔28ہجری میں آپ160 پوری شان وشوکت تیاری وطاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے، لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی،یوں ان کے سر پرپڑنے والی افتادٹل گئی، بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی پر ایک160 بار پھرحضرت امیر معاویہؓ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ، جس میں تقریبا پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے، قبرص کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؓ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لیے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ، جن میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ ، حضرت ابوذرغفاریؓ، حضرت ابودرداءؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ اور حضرت شداد بن اوسؓ قابلِ ذکر ہیں، شریک ہوئے۔اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کار رومی فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بد ترین شکست ہوئی اور مسلمانوں نے بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔محدثین فرماتے ہیں کہ :حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوش خبری بیان فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکرہے، جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا۔اور اس کا اولین مصداق یہی لشکر ہے۔آپ160 نے رومیوں کے خلاف 16جنگیں لڑیں،حتی کہ آخری وصیت بھی یہی تھی کہ روم کا گلا گھونٹ دو۔
مؤرخین کا بیان ہے کہ:32ھ سے56ھ160 کے سال اسلامی فتوحات کے نمایاں سال شمار ہوتے ہیں،ان سالوں میں حضرت معاویہؓ160 کی سرکردگی میں قسطنطنیہ ، سندھ کا کچھ حصہ ، کابل ،ہندوستان ، ملک سوڈان، افریقا،سسلی، قبستان، بخارا وسمر قند سمیت بلادِ عجم اسلامی خلافت کے زیرِ نگیں آئے۔تفصیلات موجبِ طوالت ہوں گی

 

2 تبصرے

  1. I hope Muhammad Yacoob will stand with his beloved friend on the day of judgement and will get the water from his friend and that water will be not sweet because the sweet water will be with Ali and his family

  2. Saying and writing without evidence will lead the person to wrong place where he or she will get his saying in left hand

جواب چھوڑ دیں