سعودی عرب کی ناکہ بندی

وقت کے ساتھ ساتھ عرب کے خطے میں صف بندی واضح ہوتی جارہی ہے۔سعودی عرب کی قیادت میں متحدہ عرب امارات ، کویت ،عمان بحرین اور مصر ایک صف میں کھڑے ہیں۔ دوسرا اتحاد ترکی کی قیادت میں قطر، ایران ،شام اور سوڈان کا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ترکی اور اس کے اتحادیوں کی پیش قدمی جاری ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کے بعد ترکی نے دوحہ میں اپنی فوجیں اتار کر سعودی عرب کو واضح پیغام دیا تھا۔ اب ترکی نے سوڈان کے جزیرے سواکن میں فوجی اڈا بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس فوجی اڈے کے اخراجات قطر ادا کرے گا۔ سواکن کے جزیرے سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہی پورٹ آف سوڈان ہے جو چین کی دنیا بھرمیں بندرگاہیں بنانے کے پروجیکٹ میں شامل ہے۔ اس سے قبل ترکی صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈا قائم کرچکا ہے۔ جہاں پر ترکی صومالیہ کے دس ہزار فوجیوں کو تربیت بھی فراہم کرے گا۔ صومالیہ کے بالکل برابر جبوتی میں بھی ترکی فوجی اڈا بنا رہا ہے۔ جبوتی اپنا ملک فوجی اڈوں کے لیے پیش کرنے کے بارے میں مشہور ہے۔ جبوتی جیسے ننھے سے ملک میں امریکا کی سنٹرل کمانڈ برائے افریقا موجود ہے۔ امریکی فوجی اڈے کے علاوہ یہاں پر فرانس، اٹلی ، چین ، جاپان اور سعودی عرب کے بھی فوجی اڈے قائم ہیں۔
واضح رہے کہ یہ جاپان کا اس کے ملک سے باہر واحد فوجی اڈا ہے۔ اس علاقے کا نقشہ دیکھیں تو صورتحال زیادہ واضح ہوتی ہے۔ سواکن اور پورٹ آف سوڈان بحیرہ احمر میں تقریبا جدہ کے مقابل واقع ہیں۔جبوتی اور یمن کے درمیان اتنا کم فاصلہ ہے کہ ان کے درمیان سمندر پر پل بنانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا۔ بحیرہ احمر سے نہر سوئز کی طرف سفر کریں تو بائیں جانب پہلے صومالیہ پڑتا ہے، اس کے برابر میں جبوتی اور پھر اریٹیریا کی طویل ساحلی پٹی ہے۔ اس کے بالکل برابر میں سوڈان ہے اور پھر مصر۔ اس کے مقابل پہلے یمن واقع ہے اور اس کے بعد سعودی عرب۔
سوڈان اور مصر کے تعلقات کبھی بھی بہت اچھے نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے مابین جنگ بھی ہوچکی ہے۔ سوڈان الزام لگاتا رہا ہے کہ دارفور میں ہونے والی مسلح بے چینی میں مصر ملوث ہے۔
دریائے نیل سوڈان ہی سے گزر کر مصر میں داخل ہوتا ہے۔مصر الزام لگاتا رہا ہے کہ سوڈان دریائے نیل کا پانی روک کر مصر کو صحرا بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ابھی گزشتہ دسمبرمیں ہی دونوں ممالک اس وقت تقریبا جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے جب مصر اپنی فوجیں اریٹیریا میں سوڈان کی سرحد پرلے آیا تھا۔ صومالیہ سے لے کر پورٹ آف سوڈان تک کی پٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
ایک جانب سارے فوجی اڈے قائم ہیں یا کیے جارہے ہیں اور اس کے بالکل سامنے ایک ہی چیز نشانے پر ہے اور وہ ہے سعودی عرب۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مسلم دنیا کی تقسیم اس طرح ہوئی ہے یا کی گئی ہے کہ شیعہ سنی فیکٹر اس میں سے بالکل غائب ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے مسلم دنیا کی تقسیم سنی شیعہ فیکٹر پر تھی۔ سنی مسلم دنیا کی قیادت سعودی عرب کے پاس تھی جبکہ شیعہ مسلم دنیا کی قیادت ایران کے پاس تھی۔ نئی تقسیم ترکی اور سعودی عرب کے حوالے سے ہے۔ سعودی عرب اپنے حلیف ممالک کے ساتھ امریکا اور اسرائیل کو بھی اپنے بلاک میں شامل سمجھتا ہے۔ شام کی جنگ میں روس ایرانی بلاک میں شامل رہا۔ اس طرح ترکی اور ایران اتحاد میں روس کا کردار اہم ہے، تاہم ترکی ناٹو میں شامل ہے اور اس طرح امریکا کا قریبی اتحادی بھی ہے۔ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی موجود ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ سی صورتحال ہے کہ امریکا اور ترکی شام میں اتحادی ہیں مگر یہی امریکا ترکی کے خلاف کردوں کا اتحادی ہے۔ یہی امریکا اور اسرائیل داعش کے بھی سرپرست ہیں۔
اس پورے کھیل میں چین کا کردار فی الحال خاموش تماشائی کا ہے۔ تاہم چین کی پیشقدمی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ چین کا یہ خاموش تماشائی کا کردار زیادہ عرصے تک نہیں رہے گا اور حتمی راؤنڈ میں کھیل چین کے ہی ہاتھ میں ہوگا۔ چین جبوتی میں موجود ہے۔ یہیں پر پورٹ آف سوڈان میں بھی موجود ہے۔ ایک طرح سے یہ سعودی عرب کی مکمل ناکہ بندی ہے۔ سعودی عرب میں ماڈرنائزیشن کے نام پر ہونے والی تبدیلیوں پر اب سعودی شاہی خاندان پوری دنیا کے مذہبی مسلم حلقوں میں اپنی ہمدردی کھوچکا ہے۔ سعودی شاہی خاندان کے خلاف ہونے والی کسی بھی بغاوت یا کارروائی کو مسلم حلقوں میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اگر جبوتی میں کوئی ناکہ لگادے تو سعودی عرب کے پاس بحیرہ عرب میں مفلوج ہونے کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔ اس کے دوسری جانب خلیج فارس میں سامنے ہی ایران بیٹھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب کی ناکہ بندی انتہائی آسان سی بات ہے۔ بحیرہ عرب میں ایک جانب جبوتی اور دوسری جانب سوڈان میں سواکن میں فوجی اڈا۔ اسی طرح خلیج فارس میں ایرانی موجودگی۔
ترکی کی پیش قدمی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ترکی کو عثمانی سلطنت کے احیا جیسے خمار میں مبتلا کیا جاچکا ہے۔ اس وقت اس کے لیے سب کچھ اچھا ہے۔ ترکی کے حکمرانوں کی تصویر اسلامی دنیا میں ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے طور پر پینٹ کی گئی ہے جو امریکا اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں۔ اس کے اتحادیوں میں قطر اور ایران جیسے ممالک بھی شامل ہیں جو سعودی عرب کے عناد میں ہر حد تک جانے پر راضی ہیں۔ یمن کا محاذ خاموش نہیں ہے۔ روز ایک نئے میزائیل حملے کا شوشا چھوڑا جاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا وہی دیکھتی ہے جو بین الاقوامی میڈیا دکھاتا ہے۔ وہی سوچتی ہے جو بین الاقوامی طاقتیں چاہتی ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلمان نشانے پر ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں پر ابتلا کا دور ختم نہیں ہوا ہے مگر ان کی بازگشت کہیں پر نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں حالیہ خونریزی کا نشانہ مسلمان ہی ہیں۔ اسرائیلی محاذ پر حماس کا دھرنا جاری ہے۔ اسرائیل اور یمن کے محاذ پر اپریل اور مئی کے مہینے اہم ہیں۔ یہیں سے آئندہ کی صورتحال واضح ہوگی۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔

جواب چھوڑ دیں