عہد حاضر کا دَارا شکوہ

سہیل وڑائچ میاں نوازشریف کے ’’صحافتی وارفتگان‘‘ میں سے ایک ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ میاں صاحب کو پاکستان کا ’’دائمی وزیراعظم‘‘ بنوا دیں۔ سہیل وڑائچ کے میاں صاحب سے عشق کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے 17 مارچ 2018ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں میاں نوازشریف کو عہدِ حاضر کا ’’داراشکوہ‘‘ قرار دیا ہے اور اس بات کا ’’ماتم‘‘ کیا ہے کہ برصغیر میں ’’داراشکوہ‘‘ بار بار کیوں ہارتا ہے، اور ’’اورنگ زیب‘‘ ہمیشہ کیوں فتح مند قرار پاتا ہے؟ ’’عہدِ حاضر کے داراشکوہ‘‘ کا مقدمہ لڑنے کے لیے سہیل وڑائچ کو ’’اصل داراشکوہ‘‘ سے ’’معانقہ‘‘ کرنا پڑا ہے اور انہوں نے اپنے کالم میں داراشکوہ کی تعریف کا دریا بہادیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ داراشکوہ کئی کتابوں کا مصنف تھا۔ حضرت میاں میر اور دوسرے درویشوں کا عقیدت مند، آرٹ اور فن کا دلدادہ، عوام دوست اور رحم دل تھا۔ سہیل وڑائچ نے ہم جیسے لوگوں پر ’’مہربانی‘‘ کرتے ہوئے اُس فرانسیسی مؤرخ کا نام بھی لکھ دیا ہے جسے تاریخ ’’برنیئر‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہی برنیئر ہے جس نے اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ کی کشمکش پر قلم اٹھایا ہے، اور جس کی تحریروں کے حوالے ڈاکٹر مبارک جیسے سیکولر اور سوشلسٹ دانش وروں کی تحریروں میں ’’جلوے‘‘ بکھیرتے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے بھی اسی برنیئر کے ذریعے اورنگ زیب کے گلے پر کالم کی چھری پھیری ہے اور داراشکوہ کے سر پر ’’عظمت کا تاج‘‘ پہنایا ہے۔ سہیل وڑائچ نے ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نوازشریف کو عہدِ حاضر کے داراشکوہ قرار دیا ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کو عہدِ جدید کا ’’اورنگ زیب‘‘ باور کرایا ہے۔
میاں نوازشریف کے ایک اور صحافتی عاشق ’’سابق سوشلسٹ‘‘ اور موجودہ جمہوریت پرست اور آزاد منڈی کے چیمپئن وجاہت مسعود ہیں۔ انہوں نے سہیل وڑائچ کے کالم ’’داراشکوہ ہر بار کیوں ہارتا ہے‘‘ کو 20 مارچ 2018ء کے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں داد و تحسین سے نوازا، اور سہیل وڑائچ کے کالم کو ’’معجزہ‘‘ قرار دیا۔ مزید فرمایا کہ سہیل وڑائچ نے ساڑھے تین سو سال کی تاریخ کو ایک سوال میں سمو دیا۔ ظاہر ہے کہ آدمی سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ ہو اور اورنگزیب پر کیچڑ نہ اچھالے، یہ کیسے ہوسکتا ہے! چنانچہ وجاہت مسعود نے اپنے کالم میں اورنگ زیب کو ’’ظلم‘‘ اور داراشکوہ کو ’’امن و محبت‘‘ کا استعارہ بناکر پیش کیا ہے۔
محمد سعید اظہر بھی جنگ کے کالم نگار اور میاں صاحب کے ’’طرف دار‘‘ ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے 21 مارچ 2018ء کے کالم میں سہیل وڑائچ کے اس خیال کی تصدیق کی ہے کہ میاں نوازشریف عصرِ حاضر کے داراشکوہ ہیں، اور فرمایا ہے کہ داراشکوہ متذبذب عوامی طرزِعمل کی وجہ سے ہارتے رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میاں صاحب کے کسی ’’دشمن‘‘ نے انہیں عہدِ حاضر کا داراشکوہ قرار نہیں دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو میاں صاحب کے تین پرستاروں نے ان کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ تسلیم کیا ہے۔ روزنامہ جنگ میاں صاحب کا صحافتی ترجمان ہے۔ اسے میاں صاحب کے جدید داراشکوہ ہونے پر اعتراض ہوتا تو وہ سہیل وڑائچ، وجاہت مسعود اور محمد سعید اظہر کے کالم شائع نہ کرتا۔ اس طرح میاں نوازشریف کے عہدِ حاضر کا داراشکوہ ہونے کا چوتھا گواہ خود میر شکیل الرحمن کا روزنامہ جنگ ہے۔ جنگ کثیرالاشاعت اخبار ہے اور میاں صاحب کا غیر سرکاری ترجمان بھی، چنانچہ میاں صاحب کا پورا خاندان اور نوازلیگ روزنامہ جنگ پڑھتی ہے۔ چونکہ میاں صاحب، ان کی دختر، ان کے برادرِ خورد اور نواز لیگ کے کسی ترجمان نے اب تک میاں صاحب کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ قرار دینے پر اعتراض نہیں کیا چنانچہ میاں صاحب کے جدید داراشکوہ ہونے کے دعوے پر پانچویں گواہی خود میاں صاحب، ان کے خاندان اور ان کی پارٹی نے دے دی ہے۔ سہیل وڑائچ کے کالم کو دیکھا جائے تو اس میں ایک تکون یا Triangle موجود ہے۔ اس تکون کا ایک نقطہ فرانسیسی مؤرخ برنیئر ہے جو اورنگ زیب اور داراشکوہ سے متعلق واقعات کا راوی ہے۔ اس تکون کا دوسرا نقطہ داراشکوہ اور تیسرا نقطہ اورنگ زیب ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ مستند تاریخی حوالے داراشکوہ اور اورنگ زیب کی تصویرکشی کرنے والے فرانسیسی مورخ برنیئر کے بارے میں کیا بتاتے ہیں۔
تاریخ نویسی کے لیے ہر طرح کے تعصب، نفرت، بغض اور حسد سے ماورا ہونا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی مؤرخ، غیر جانب دار مؤرخ کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ مگر برنیئر یا برنیئے کی مشکل یہ ہے کہ وہ اسلام سے شدید نفرت کرتا تھا اور اس نے اسلام کو چھے گالیاں دی ہیں یا اس پر چھے رکیک الزامات لگائے ہیں۔ اس نے اسلام کو ’’توہم پرستی‘‘ قرار دیا ہے۔ ’’مہلک اور تباہ کن قوانین‘‘ کا مجموعہ باور کرایا ہے۔ اسے ’’تلوار کے زور‘‘ پر نافذ ہونے والے دین کا نام دیا ہے۔ اسے ’’قابلِ نفرت فریب‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ اسے ’’بے معنی اور فضول ٹوٹکا‘‘ کہا ہے، اور کہا ہے کہ اسلام اب بھی ظالمانہ تشدد کے ذریعے انسانیت پر مسلط ہے۔ (’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 191)
برنیئر صرف اسلام کو گالیاں دے کر نہیں رہ گیا، اُس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’جعل ساز‘‘ اور ’’جھوٹا نبی‘‘ قرار دیا ہے۔
(’’سیکولرزم، مباحث اورمغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 192)
برنیئر کو جہانگیر سے بڑی محبت تھی، مگر اس محبت کا سبب خود برنیئر کے الفاظ میں ملاحظہ کرلیجیے:
’’بسترِ مرگ پر جہانگیر نے ایک عیسائی کی موت مرنے کی تمنا کی۔‘‘ (’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ صفحہ 192)
اتفاق سے برنیئر عیسائی تھا، اور بدقسمتی سے داراشکوہ ہندوازم کے ساتھ ساتھ عیسائیت سے بھی متاثر تھا۔ اس کی دو بہنوں نے عیسائیت قبول کرلی تھی۔ چنانچہ برنیئر محسوس کرتا تھا کہ داراشکوہ بادشاہ بن گیا تو ہندوستان کی عظیم الشان سلطنت ایک عیسائی کے ہاتھ میں آسکتی ہے۔ لیکن برنیئر صرف اسلام اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت اور عیسائیت ہی سے محبت نہیں کرتا تھا بلکہ اس کے باطن کی ناپاکی کی کئی اور صورتیں بھی موجود تھیں۔ ان میں سے ایک ناپاکی یہ تھی کہ جہاں آرا شاہ جہاں کی بیٹی تھی، اسے اپنے والد سے شدید محبت تھی، اور یہ ایک ’’معمول کی بات‘‘ تھی، مگر برنیئر نے شاہ جہاں اور جہاں آرا کے درمیان جنسی تعلق ’’ایجاد‘‘ کردکھایا۔ اُس نے اس ضمن میں رکاکت کی انتہا کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ شاہ جہاں کو اس تعلق کے سلسلے میں مولویوں نے فتویٰ بھی مہیا کردیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں برنیئر نے کوئی ’’ٹھوس شہادت‘‘ کیا، ٹھوس شہادت کی طرف ’’اشارہ‘‘ بھی فراہم نہیں کیا۔ یہ ہے وہ عظیم مؤرخ جو ڈاکٹر مبارک، سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود جیسے لوگوں کا ’’ہیرو‘‘ ہے، اور جسے وہ اورنگ زیب عالمگیر جیسی عظیم الشان اور تاریخ ساز شخصیت کو ’’گرانے‘‘ اور’’داراشکوہ‘‘ جیسے اسلام دشمن، ہندوازم اورعیسائیت کے پرستار کو ’’ابھارنے‘‘ کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ گفتگو ہمیں اس سوال تک لے آئی ہے کہ سہیل وڑائچ اور ان جیسے لوگوں کا ’’اصل داراشکوہ‘‘ کون تھا اور اس کے بارے میں ہماری تاریخ کیا کہتی ہے؟
علامہ شبلی نعمانی برصغیر کے بڑے علماء میں سے ایک ہیں۔ وہ ’’سیرت النبیؐ‘‘ اور ’’الفاروق‘‘ جیسی معرکہ آراء کتب کے مصنف ہیں۔ شبلی نے 1909ء میں اورنگ زیب پر ’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں شبلی ’اصل داراشکوہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شاہ جہاں کے آخری دور میں جب معاملات داراشکوہ کے ہاتھ میں آگئے تو وہ (یعنی داراشکوہ) کھل کر ہندوئوں کی حمایت کرنے لگا۔ اس نے ویدوں کے مذہبی اور فلسفیانہ حصوں کا جو اپنشد کہلاتے ہیں، سیرالاسرار کے نام سے ترجمہ کیا اور کہا کہ قرآن اصل میں اپنشد ہی ہے۔‘‘
(’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘۔ از شبلی نعمانی۔ صفحہ 20)
یہ اسلام اور قرآن کے سلسلے میں داراشکوہ کا نسبتاً ’’نرم بیان‘‘ ہے۔ اس لیے کہ دارا نے ایک بار یہ بھی کہا کہ اپنشد قرآن سے برتر کتاب ہے۔ الٰہ آباد کے شیخ محب اللہ کے نام دارا کا ایک خط محفوظ ہے۔ اس خط میں دارا نے لکھا ہے کہ وہ اپنے وجدانی معارف و اثرات کو الہامی کتب کے مندرجات سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہے۔‘‘
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔صفحہ 206)
دارا کے ان خیالات سے ظاہر ہے کہ وہ ایک جگہ قرآن کو اپنشد کہتا ہے۔ یہ دارا کی روحانی اور فکری گمراہی کی پہلی منزل تھی، اور یہ منزل بتارہی تھی کہ دارا گمراہی اور ضلالت میں مزید ترقی کرے گا۔ اور اس نے مزید ترقی کی، یہاں تک کہ اس نے اپنشدوں کو ’’قرآن سے برتر‘‘ قرار دے دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ دارا یہ باتیں اُس وقت کررہا تھا جب وہ ہندوستان کا بادشاہ نہیں تھا۔ دارا ہندوستان کا بادشاہ بن جاتا تو پھر وہ کہتا کہ چونکہ اپنشد قرآن سے برتر ہیں اس لیے قرآن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قرآن اپنشد سے کم تر بن جاتا تو پھر احادیث، سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقہ اور اسلامی تاریخ و تہذیب کو کون پوچھتا؟ یعنی اورنگ زیب کے بجائے دارا اقتدار میں آجاتا تو وہ ہندوستان کو اسلام کا قبرستان بنادیتا، خاص طور پر اس صور ت میں جبکہ وہ اپنے خیالات کو الہامی کتب کے مندرجات یا متن سے مدیر افضل خیال کرتا تھا۔ یہ ہے داراشکوہ کی وہ ’’دانش وری‘‘، وہ ’’علمیت‘‘، وہ ’’صوفیانہ طرزِ فکر‘‘، وہ ’’ادب اور فن‘‘ سے دلچسپی جس کا سہیل وڑائچ اور اُن جیسے افراد پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن چلتے چلتے داراشکوہ کے کچھ اور ’’زریں خیالات‘‘ بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ برنیئے کا مدیر کانسٹیبل منہوچی کے حوالے سے لکھتا ہے:
’’عیسائی جذبات جن کے ذریعے مشنری پادریوں نے کوشش کرکے اسے (یعنی دارا کو) سرگرم کیا، اس کی زندگی کے آخری لمحات میں بیدار ہوگئے تھے، چنانچہ اسے موت سے قبل کہتے سنا گیا
’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے موت دے رہا ہے، جبکہ ابن اللہ اور مریم مجھے نجات دلائیں گے۔‘‘
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 223)
سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود صاحب! یہ ہے آپ کا ’’اصل داراشکوہ‘‘… یہ ہے اس کی ’’نرمی‘‘… یہ ہے اس کی میاں میر اور درویشوں سے عقیدت… یہ ہے اس کی آرٹ اور فن سے وابستگی… یہ ہے وہ داراشکوہ جس کے ہارنے کا آپ کو ’’دکھ‘‘ ہے۔ تو کیا آپ حضرات کو عہدِ حاضر کے داراشکوہ میاں نوازشریف میں بھی ’’اصل داراشکوہ‘‘ کی ’’خوبیاں‘‘ نظر آتی ہیں، اور آپ چاہتے ہیں کہ آج نہیں تو کل ’’عہدِ حاضر کا داراشکوہ‘‘ بھی وہی کچھ کہے جو اصل داراشکوہ کہہ کر جاچکا ہے؟ کیا جس طرح اصل داراشکوہ ہندوستان کو اسلام کا قبرستان بنانے کی سازش کررہا تھا آپ چاہتے ہیں کہ عہدِ حاضر کا داراشکوہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلام کا قبرستان بنانے کی جدوجہد کرے؟ چونکہ میاں نوازشریف، ان کے ترجمان اور ان کی جماعت میاں صاحب کو اصل داراشکوہ کے برابر بٹھانے کی کوشش پر خاموش ہیں، اس لیے اہلِ پاکستان کیا برصغیر کی پوری ملتِ اسلامیہ، بلکہ پوری امتِ مسلمہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ میاں صاحب واقعتا خود کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ خیال کرتے ہیں۔ میاں صاحب کی طرف اگر کوئی شخص تنکا بھی پھینک دیتا ہے تو میاں صاحب کی دخترِ نیک اختر اور میاں صاحب کی پارٹی کے راہنما آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن میاں نوازشریف کے ’’ممتاز صحافتی عاشقوں‘‘ نے میاں صاحب کو داراشکوہ جیسے اسلام دشمن اور ہندوازم اور عیسائیت کے پرستار سے جاملایا لیکن میاں صاحب کی دخترِ نیک اختر اس بات پر مشتعل ہوئیں نہ خواجہ سعد رفیق اور طلال چودھری کو غصہ آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی واقعتا میاں صاحب کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کو ہندوستان سے عشق ہے، مودی جیسا اسلام دشمن اور پاکستان مخالف انہیں اپنے دربار میں طلب کرتا ہے تو میاں صاحب دھمال ڈالتے ہوئے مودی کے دربار میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ مودی دو ملکوں، دو قوموں، دو تہذیبوں اور دو مذاہب کے تعلقات کو ’’نواز مودی‘‘ کے مسئلے میں ڈھالتے ہوئے جاتی امرا تشریف لاتے ہیں تو میاں صاحب نہال ہوجاتے ہیں۔ میاں صاحب کو پاکستان اور بھارت کی سرحد ایک ’’لکیر‘‘ نظر آتی ہے۔ اُن کا دل چاہتا ہے کہ وہ ہولی کھیلیں۔ میاں صاحب کو دونوں ملکوں کی ثقافت ایک جیسی نظر آتی ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح داراشکوہ کو قرآن اپنشد جیسا دکھائی دیتا تھا۔ داراشکوہ کا وہ بیان ہم کوٹ کرچکے جس میں اس نے کہا ہے کہ نعوذباللہ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے موت دے رہا ہے‘‘۔ میاں صاحب کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ پوری جرأت کے ساتھ ختمِ نبوت کے قانون پر حملہ کرچکے ہیں۔ شنید ہے کہ پنجاب میں جہاد سے متعلق آیات نصاب سے نکالی جاچکی ہیں۔ میاں صاحب کے گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری ہورہی تھی۔ ہم نے فرائیڈے اسپیشل کے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ نجکاری کا عمل اتنا غیر شفاف ہے کہ پاکستان کے اہم ترین قومی ادارے کو ہمارا دشمن خرید سکتا ہے۔ اتفاق سے، محض اتفاق سے سپریم کورٹ نے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا نوٹس لیا اور تحقیقات کرائیں تو معلوم ہوا کہ بھارت کا متّل گروپ پاکستان اسٹیل ملز خرید رہا تھا، البتہ اس کا فرنٹ مین کوئی اور تھا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عہدِ حاضر کا داراشکوہ اگر ’’کمزوری کی حالت‘‘ میں یہ سب کرسکتا ہے تو وہ ’’طاقت ور‘‘ بن کر کیا نہیں کرے گا؟ تجزیہ کیا جائے تو ان تمام حقائق میں اس سوال کا جواب موجود ہے کہ داراشکوہ کو بار بار شکست کیوں ہوتی رہی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہوکر بھی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کرے گا، اس پر اصرار کرے گا، ہندوازم اور عیسائیت کو اسلام پر ترجیح دے گا، اسلامی تہذیب اور تاریخ کو مسخ کرے گا اور انہیں مٹانے کی سازش کرے گا تو وہ گرے پڑے سے گرے پڑے مسلم معاشرے میں بھی کیسے کامیاب ہوگا!
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ سہیل وڑائچ اور اُن جیسے ’’پاک طینت‘‘ لوگوں کے پسندیدہ مؤرخ برنیئر کی تکون کا تیسرا نقطہ یعنی اورنگ زیب کے بارے میں مسلم تاریخ ہمیں کیا بتاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بار پھر ہم شبلی کی تصنیف ’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ سے رجوع کرتے ہیں۔ یہ کتاب آج سے 109 سال قبل شائع ہوئی تھی، مگر یہ آج بھی ایک زندہ تصنیف ہے۔ اس تصنیف کے آغاز میں علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف اپنی دلی نفرت کا کھل کر اظہار کیا۔ اس نفرت کا ایک مظہر کسی غلیظ عیسائی رہنما کا یہ بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اسکندریہ کے کتب خانے کو نذرِ آتش کردیا تھا۔ شبلی کے بقول ’’یہ ایک تاریخی جھوٹ تھا، مگر یہ جھوٹ اتنے بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا کہ اچھے اچھوں کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوگیا کہ کہیں یہ بات سچ ہی نہ ہو۔ شبلی کے بقول ایسا ہی معاملہ اورنگ زیب عالمگیر کا ہے۔ ان کے بارے میں مغربی مؤرخین نے اتنے بڑے پیمانے پر دروغ گوئی کی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
(’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر۔ از شبلی نعمانی۔ صفحہ 1 )
اس سے قبل کہ اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے، ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ آخر برنیئر سمیت مختلف یورپی مؤرخین اور اُن کے تھوکے ہوئے نوالے چبانے والے ڈاکٹر مبارک، سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود جیسے لوگوں کو اور خود داراشکوہ اور ہندوئوں کو اورنگ زیب ’’زہر‘‘ کیوں لگتا ہے؟ تاریخ اس سوال کا ایک ہی جواب مہیا کرتی ہے، اور وہ یہ کہ اورنگ زیب اسلام کا سچا سپاہی، باعمل مسلمان اور برصغیر میں اسلام اورملتِ اسلامیہ کی بقا و سلامتی کی علامت تھا اور اسے اسلام سے ایسا عشق تھا کہ اس نے 43 برس کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔ اس عمر میں حفظ تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اورنگ زیب تہجد گزار تھا، ’’ماثرِ عالمگیری‘‘ میں ہے کہ وہ حالتِ جنگ میں بھی خشوع و خضوع کی حالت میں نماز ادا کرتا تھا۔ بلخ کی مہم کے دوران دشمن کے دستوں نے اسے گھیر لیا تھا لیکن نماز کے وقت پر وہ گھوڑے سے اترا اور امامت شروع کردی۔ امیر بلخ عبدالعزیز خان یہ منظر دیکھ کر اتنا متاثر ہوا کہ اس نے لڑائی سے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ ایسے شخص سے لڑنا اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔ داراشکوہ کو اورنگ زیب کی نماز اتنی ناپسند تھی کہ وہ اورنگ زیب کو ’’وہ نمازی‘‘ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ سہیل وڑائچ اور ان جیسے افراد کا ہیرو برنیئر اورنگ زیب کی مذہبیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’وہ ایسی پرہیزگاری کا ڈھونگ کرتا تھا جو اس کے دل میں تھی ہی نہیں۔‘‘
(سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 193،203،204)
سوال یہ ہے کہ برنیئر کو اورنگ زیب کے ’’دل کا حال‘‘ کس طرح معلوم ہوا؟ مگر جو شخص اورنگ زیب کے رسولؐ کی مذہبیت کو نہ مانتا ہو وہ اورنگ زیب کی مذہبیت کو کیا مانے گا؟
تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ اورنگ زیب کو اقتدار سے دلچسپی نہ تھی، بلکہ وہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنا چاہتا تھا، مگر وہ دیکھ رہا تھا کہ اللہ کا دین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت برصغیر میں سنگین خطرات سے دوچار تھی۔ بدقسمتی سے کوئی شخص اورنگ زیب کے زمانے کے برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کی حالت کا صحیح نقشہ کھینچ کر یہ نہیں بتاتا کہ اورنگ زیب کیوں اقتدار میں آیا؟ اور اس کا اقتدار میں آنا کیوں ضروری تھا؟ ان سوالات کے جواب کے لیے چند شہادتیں پیش ہیں۔
شبلی نے اورنگ زیب سے متعلق کتاب میں لکھا ہے:
’’جہانگیر کے آخری زمانے تک ریاست کمزور پڑچکی تھی۔ ہندو مسلمان عورتوں کو جبراً ہندو بنا کر اُن سے شادی کرلیتے تھے۔ مسجدیں شہید کرکے مسجد کے علاقے کو اپنے گھروں میں شامل کرلیتے تھے۔ اس کی تفصیل ’’شاہ جہاں نامہ‘‘ میں موجود ہے۔ شاہ جہاں نامہ شاہی تاریخ ہے۔‘‘ (صفحہ 25)
شبلی مزید لکھتے ہیں:
’’شاہ جہاں کے زمانے میں ہندوئوں نے مسلمان عورتوں سے جبراً شادیاں کیں تو شاہ جہاں نے انہیں آزاد کرایا۔ ہندوئوں نے مساجد کو گرا کر مندر بنائے تو شاہ جہاں نے مندر منہدم کرکے پھر سے مساجد تعمیر کرائیں۔ مگر جب آخری دور میں معاملات داراشکوہ کے ہاتھ میں آگئے تو دارا کھل کر ہندوئوں کی حمایت کرنے لگا۔ اس نے لکھا کہ قرآن اصل میں اپنشد ہی ہے۔‘‘ (صفحہ 26)
شبلی کہتے ہیں:
’’جو ہندو اکبر کے دور میں شریکِ سلطنت بن چکے تھے، جو جہانگیر کے زمانے میں بت خانے تعمیر کرتے تھے، جو شاہ جہاں کے دور میں مسجدیں گراکر بت خانے بناتے تھے اور مسلمان عورتوں سے جبراً شادیاں کرتے تھے، انہوں نے داراشکوہ کے طاقت ور ہونے کے بعد کیا نہ کیا ہوگا!‘‘(صفحہ 26)
اس سلسلے میں طارق جان نے لکھا ہے:
’’اورنگ زیب نے ایسے ملک میں آنکھ کھولی جس نے جلال الدین اکبر کی اسلام دشمنی بھی دیکھی، جس کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ مسلم سوسائٹی کو دینِ اسلام سے پھیر دے اور اس کے نتیجے میں (ہندوئوں کی خوش دلی اور تعاون کی شکل میں) اپنے لیے سیاسی فوائد سمیٹ لے۔ اورنگ زیب کو اپنے پردادا اکبر، اپنے دادا جہانگیر اور شیخ احمد سرہندی کے باہمی نزاع کا بھی علم ہوچکا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اکبر نے تو بچوں کے ناموں کے ساتھ ’’محمد‘‘ کا لاحقہ لگانے کی ممانعت کردی تھی، اسلامی کلینڈر منسوخ کردیا تھا اور عربی زبان، قرآن پاک اور شرعی قوانین کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی کہ اکبر نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور حج بیت اللہ پر جانے سے روکنے کا حکم دیا، جبکہ شراب اور سور کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی۔‘‘
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 205)
ان ناقابلِ تردید حقائق کو دیکھا جائے تو اقتدار اورنگ زیب کے لیے ’’شوق‘‘ نہیں بلکہ ایک دینی، تہذیبی اور تاریخی ’’ذمے داری‘‘ تھی۔ اورنگ زیب نے ہندوستان پر 50 سال حکومت کی، اس کے باوجود حضرت شاہ ولی اللہ تک آتے آتے یہ صورتِ حال ہوچکی تھی کہ برصغیر کے مسلم معاشرے سے قرآن اور حدیث کا علم اٹھ چکا تھا۔ شاہ ولی اللہ نے قرآن کے ترجمے اور قرآن و حدیث کے دروس کے سلسلے قائم کرکے برصغیر کو قرآن و حدیث کے علم سے منور کردیا۔ اگر اورنگ زیب کے 50 سالہ اقتدار کے بعد برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کا یہ حال ہوا تو داراشکوہ کے پچاس سالہ دور کے بعد برصغیر میں اسلام، اس کے علم اور اس پر عمل کا کیا حال ہوتا؟ دارا اپنشد کو قرآن سے برتر سمجھتا تھا، چنانچہ مسلمان بھی دارا کے زیر سایہ قرآن و حدیث کے بجائے اپنشد پڑھتے اور رفتہ رفتہ ہندو ازم میں جذب ہوجاتے جیسے کہ سکھ ہندو ازم میں جذب ہوگئے ہیں۔ پھر نہ کوئی اقبال ہوتا، نہ کوئی مولانا مودودی ہوتے، نہ مولانا اشرف علی تھانوی، نہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی۔ پھر نہ کوئی خطبہ الٰہ آباد ہوتا، نہ کوئی محمد علی جناح، نہ کوئی مسلم لیگ ہوتی، نہ قراردادِ پاکستان اور نہ خود پاکستان۔ ہر طرف داراشکوہ کی ’’فتح‘‘ ہوتی اور ’’اورنگ زیب کی شکست‘‘ ۔ پھر ہر طرف ہندوازم ہی ہندوازم ہوتا۔ مگر پھر نہ عہدِ حاضر کا داراشکوہ ہوتا، نہ سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود ہوتے… ہوتے، تو ان کے نام بنواری لعل اور کرشن چندر ہوتے۔ مگر خدا کا شکر کہ اورنگ زیب جیت گیا اور داراشکوہ ہار گیا۔ تاہم امریکہ ہو یا یورپ، بھارت ہو یا سہیل وڑائچ جیسے بدباطن… ان تمام کی خواہش یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی صورت میں داراشکوہ کے تجربے کو دہرایا جائے۔
تاریخ قوموں کی تقدیر ہوتی ہے، اور قوموں کی تقدیر کو مذاق میں اڑانا جہالت ہے۔ اتفاق سے ابن انشا نے بھی اس جہالت کی ایک بڑی مثال قائم کررکھی ہے۔ انہوں نے تاریخی اعتبار سے یہ فحش جملہ لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے کوئی نماز اور کوئی بھائی نہیں چھوڑا۔ اس فقرے سے ’’تاثر‘‘ ملتا ہے کہ اورنگ زیب بڑا سفاک تھا اور اُس نے باپ کو جیل میں ڈالا اور بھائیوں کو قتل کیا۔ حالانکہ یہ نوبت اورنگ زیب کی وجہ سے نہیں، خود شاہ جہاں اور داراشکوہ کی وجہ سے آئی۔
اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش میں شاہ جہاں باپ کی حیثیت سے ’’غیر جانب دار‘‘ نہ تھا۔ وہ داراشکوہ کے ساتھ تھا اور چاہتا تھا کہ اورنگ زیب کو قتل کردیا جائے۔ اس کی گواہی داراشکوہ کے حمایتی منہوچی نے بھی دی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ شاہ جہاں، اورنگ زیب کو محل میں بلا کر قوی الاعضاء تاتاری، قلمک اور ازبک خواتین کے ہاتھوں قتل کرانا چاہتا تھا۔ برنیئر نے اپنے سفرنامے میں ایسی ہی بات لکھی ہے۔ محل کے اندر کی بات اورنگ زیب کی چھوٹی بہن روشن آراء جان گئی اور اس نے اورنگ زیب کو شاہ جہاں کے ارادوں سے آگاہ کردیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شاہ جہاں خود کو بیمار ظاہر کرکے اورنگ زیب کو محل میں بلارہا تھا، اور خطرات کے باوجود اورنگ زیب باپ کی تمنا پوری کرنے کے لیے محل آنا چاہتا تھا۔ وہ صرف یہ مطالبہ کررہا تھا کہ اس کے فوجیوں کو محل کے دروازے پر پہرے کی اجازت دے دی جائے۔
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ صفحہ 212،213)
اگرچہ شاہ جہاں، اورنگ زیب کے قتل کی سازش کررہا تھا مگر اورنگ زیب باپ کو لکھ رہا تھا:
’’جب تک طاقت اور اختیار آپ کے مبارک ہاتھوں میں رہا، آپ کی اطاعت مجھ پر لازم تھی۔ اللہ بزرگ و برتر گواہ ہے کہ میں نے کبھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا، لیکن جب آنجناب بیمار پڑ گئے تو شہزادے (دارا) نے اختیارات سلب کرلیے۔ اس نے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دین کی جگہ ہندوئوں کا بت پرستانہ مذہب پھیلانا شروع کردیا جس سے سلطنت میں بے چینی پھیلی۔ اپنے آپ کو حقیقی جانشین سمجھ کر اس (دارا) نے آپ کو بادشاہی سے معزول کردیا… چنانچہ میں برہان پور سے چل پڑا کہ کہیں یومِ آخرت میں اللہ مجھے ذمے دار نہ ٹھیرائے کہ میں نے فساد کو کیوں نہیں دبایا۔‘‘ (صفحہ 217)
ایک اور خط اورنگ زیب نے باپ کو لکھا:
’’آپ کی علالت کے ابتدائی ایام میں جب بڑے شہزادے نے، جس میں ایک مسلمان کے شریفانہ کردار کا ذرہ برابر بھی نقش موجود نہیں، اقتدار ہاتھ میں لیا اور الحاد و بے دینی کا علَم بلند کیا تو میں نے اسے اپنی اسلامی ذمے داری سمجھا کہ اسے مسندِ اقتدار سے اتار پھینکوں۔ چونکہ آپ عالی وقار کا ایک ہی جانب جھکائو رہا اور آپ حالات کی سنگینی کا احساس نہ کرپائے، اور آپ نے بڑے شہزادے کو بے دینی پھیلانے کی آزادی دیے رکھی، (چنانچہ) میں نے تہیہ کرلیا کہ اس کے خلاف جہاد کروں۔‘‘ (صفحہ 216)
سوال یہ ہے کہ سہیل وڑائچ اور ان جیسے لوگوں کے صوفی منش اور نرم خو ’دارا‘ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کرتے ہی کیا کیا…؟ اس نے دربار سے ایسے امراء کو نکال پھینکا جن پر اورنگ زیب سے وفاداری کا شبہ تھا۔ دربار میں اورنگ زیب کے رابطہ افسر عیسیٰ بیگ کو پہلے حوالۂ زنداں کیا، پھر اس کی جائداد ضبط کرلی۔ دارا نے باپ کے جعلی دستخط کرکے جسونت سنگھ کی کمان میں متحدہ فوج کو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بھیجا۔ اورنگ زیب نے اپنے دوسرے بھائی مراد کے ساتھ صلح کی ہرممکن کوشش کی۔ اس نے مراد کو 20 لاکھ روپے اور دو سو گھوڑے بھیجے اور اسے یقین دلایا کہ دارا کے معاملے کے سلجھتے ہی مراد کو اپنے موعودہ علاقوں کی طرف جانے کی اجازت ہوگی، مگر مراد مطلق بادشاہی کا خواب دیکھ رہا تھا، چنانچہ اُس نے تختِ شاہی پر اپنے دعوے کا اعلان کردیا۔ اس بات نے اورنگ زیب کو دُکھی کردیا۔ اب اس کے سامنے تین حریف تھے: اس کا باپ اور دو بھائی۔ چنانچہ اس نے مراد کو پکڑ کر گوالیار کے قلعے میں بند کردیا اور اسے فیاضیانہ عطیات سے نوازا۔ اس کا خاندان اس کے ساتھ رہا۔ اس کی خاص محبوبہ سرستی بائی بھی اس کی دسترس میں رہی۔ لیکن مراد نے فرار کی کوشش کی۔ اورنگ زیب اسے قتل کرسکتا تھا مگر اس نے اسے چار سال تک حفاظتی حراست میں رکھا۔ اورنگ زیب پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے دارا کو قتل کیا۔ لیکن دارا کے عاشق اور سیکولر اور لبرل عناصر کے پسندیدہ مؤرخ برنیئر کے بقول داراشکوہ کی موت علماء کی ایک مجلس کے اجتماعی فیصلے یا فتوے کے نتیجے میں ہوئی، نہ کہ اورنگ زیب کے فرمانِ شاہی کے نتیجے میں۔ (صفحہ 222)
اورنگ زیب پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اس نے اپنی ہندو رعایا اور خواص پر بڑے ظلم کیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اورنگ زیب نے اقتدار سنبھالتے ہی 80 ٹیکس ختم کردیے۔ مغربی مؤرخ الفنسٹن نے کہا ہے کہ اورنگ زیب نے مراٹھا جنگجو شیوا جی کے ساتھ برا سلوک کیا۔ وہ ایسا نہ کرتا تو شیواجی مطیع ہوسکتا تھا۔ مگر شبلی نے اورنگ زیب سے متعلق اپنی تصنیف میں اس الزام کی تردید کی ہے اورلکھا ہے کہ اورنگ زیب نے شیواجی سے بہت اچھا سلوک کیا۔ (صفحہ 13)
شیواجی کے بعد اس کے بیٹے سبنھاجی نے قیادت سنبھالی۔ ایک معرکے کے بعد اس کا سات سالہ بیٹا ساہو اورنگ زیب کے ہاتھ لگا۔ سبنھا کی ماں بھی قید ہوئی۔ مگر شبلی کے بقول اورنگ زیب نے ساہو کو ہفت ہزاری بنایا اور اسے راجا کا درجہ دیا۔ (صفحہ 16)
شاہ جہاں بیمار ہوا تو اورنگ زیب دکن سے باپ کے ساتھ ملاقات کے لیے روانہ ہوا مگر جودھ پور کے راجا جے سنگھ اور جسونت سنگھ نے اس کا راستہ روکا۔ جنگ ہوئی اور جسونت سنگھ فرار ہوگیا۔ اورنگ زیب بادشاہ بنا تو جسونت سنگھ نے اس سے رابطہ کیا اور معافی کا طلب گار ہوا۔ اورنگ زیب نے اسے معاف کردیا۔ کئی سال بعد جسونت سنگھ نے پھر بغاوت کی اور اورنگ زیب کی ہندو فوج کا بڑا حصہ اپنے ساتھ ملالیا، مگر جسونت سنگھ کو پھر شکست ہوئی۔ اس نے پھر اورنگ زیب سے معافی مانگی اور اورنگ زیب نے اسے معاف کردیا، بلکہ اسے احمد آباد کا صوبیدار مقرر کردیا۔ (’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘۔ از شبلی نعمانی۔ صفحہ 21)
شبلی نے اپنی معرکہ آراء تصنیف میں اس الزام کی بھی تردید کی ہے کہ اورنگ زیب نے بت خانے توڑے۔ شبلی نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے ایسے بت خانے منہدم کیے جہاں ریاست کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں۔ اورنگ زیب 25 سال دکن میں رہا مگر چونکہ وہاں اس کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی چنانچہ 25 سال میں اس نے ایک بت کو بھی ہاتھ نہ لگایا۔ (صفحہ 32)
یہ حقائق بتاتے ہیں کہ اورنگ زیب اصل میں کون تھا اور اس کی فتح کا راز کیا تھا؟ بدقسمتی سے سہیل وڑائچ نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو عہد حاضر کا اورنگ زیب باور کرانے کی کوشش کی۔ یہ اورنگ زیب کی توہین ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ سلطنت کیا سنبھالتی، اس سے تو ملک نہیں سنبھالا گیا۔ اورنگ زیب 86 سال کی عمر میں بھی میدانِ کارزار میں دادِ شجاعت دے رہا تھا اور باغی مراٹھوں کے قلعے فتح کررہا تھا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ صرف 24 برس کی عمر میں آدھا ملک گنوا بیٹھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں داراشکوہ تو بہت ہوئے ہیں مگر اورنگ زیب صرف ایک ہوا ہے۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ عصرِ حاضر کے داراشکوہ میاں نوازشریف کا مستقبل کیا ہے؟ بظاہر ان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے مگر ابھی تک ان میں اتنی جان ہے کہ مولانا فضل الرحمن عہدِ حاضر کے داراشکوہ کے ساتھ ’’سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا ؎
مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ

حصہ
mm
شاہنواز فاروقی پاکستان کے ایک مقبول اورمعروف کالم نگار ہیں۔ آج کل جسارت کے کالم نگار اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے اسٹاف رائیٹر ہیں۔ ان کے موضوعات میں زبان، ادب، شاعری، تنقیدکے ساتھ برصغیر کی تاریخ وتہذیب، عالمی، قومی اور علاقائی سیاست ، تعلیم، معیشت، صحافت، تاریخ اور سماجی مسائل شامل ہیں۔ اسلام اورمغرب کی آ ویزش اور امت مسلمہ کے ماضی وحال اور مستقبل کے امکانات کا مطالعہ ان کا خصوصی موضوع ہے۔ اس کے علاوہ سوشلزم اور سیکولرازم پر بھی ان کی بے شمار تحریریں ہیں۔ فاروقی صاحب ’’علم ٹی وی‘‘ پر ایک ٹاک شو ’’مکالمہ‘‘ کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ شاہنوازفاروقی اظہار خیال اور ضمیر کی آزادی پر کسی سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں۔

2 تبصرے

  1. نواز شریف یا آج کے کسی بھی شخص کا موازنہ کسی شاہ یا شہزادے سے کرنا ایک بڑا مذاق ہے۔ بادشاہ کسی اور ہی مٹی کے بنے ہوتے تھے۔ وہ کردار اب ختم ہوچکے۔گر بہت احترام کے ساتھ عرض یہ ہے کہ تاریخ کے ساتھ یہ سیاہ و سفید سوچ بہت موزوں نہیں۔ اورنگزیب شیطان نہیں تھا لیکن فرشتہ بھی نہیں تھا بالکل اسی طرح دارا بھی تھا۔ اورنگزیب نے سکھوں کے ساتھ جو بہیمانہ رویہ اختیار کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کالم میں اسکا ذکر بھی نہیں۔ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اورنگزیب نے انتہائی بہیمانہ سزائیں اپنے مخالفین کو دیں۔ جیسے زندہ انسان کی کھال اتروانا۔ سانپ سے اپنے ایک عملدار کو ڈسوایا اور اسکی لاش کئی دن تک اپنے دربار کے باہر سڑنے دی کہ سب درباری ڈر جائیں۔ ویسے شاہنواز صاحب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اورنگزیب عالمگیر کا اسلام بھی وہ نہیں تھا جو کہ مودودی صاحب کا ہے۔ اورنگزیب نے اپنے بیٹے کو خط میں کہا تھا کہ اجنتا کا مندر دیکھ لینا وہ مظہر خدا ہے۔ پھر اسکی وصیت پڑھ لیجیے جس میں وہ بتاتا ہے کہ اسے امام باڑے مخں دفن کیا جائے اور اسکے کفن کہ قیمت قرآن کی کتابت سے نہ ہو کیونکہ یہ شیعی مسلک میں جائز نہیں۔ اورنگزیب زیب کو اتنا بھی وائٹ واش نہ کریں کہ تاریخ ہی نئی لکھنی پڑے۔ دارا کا ہندو مت کی طرف میلان فلسفیانہ تھا۔ وہ اگر حکومت میں بھی آتا تو یہ بالکل ضروری نہیں تھا کہ سب کو ہانک کر ہندو ہی بنادیا جاتا جیسا کہ کالم نگار کا خیال ہے۔ جب اکبر یہ نہیں کرسکا تو دارا کیسے کرتا جو کہ ہر اعتبار سے اکبر سے کمزور شخصیت کا مالک تھا؟ خب ہزار سال کا مسلم اقتدار سارے ہندوستان کو مسلمان نہ بنا سکا تو صرف دارا کا اقتدار مسلمانوں کو اتنا ہندو کیسے بنادیتا کہ پھر نہ کوئی مودودی ہوتا نا اقبال وغیرہ وغیرہ؟؟؟ اورنگزیب نے اپنی ایک بیٹی سے شادی کے خواہشمند اپنے ہی ایک سالار کو تیل میں تلوا کر مارا تھا۔ اس بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب چھوڑ دیں