باڈی لینگویج۔خاموش اظہار کا مستند فن

بچپن کے علم کو پتھر کی لکیر سے تعبیر کیا جا تا ہے۔بچپن میں دینی تعلیم کی غرض سے محلے کی مسجد کو بھیجا جا تا تھا جہا ں نہ صرف ما ثورہ دعاؤں،منتخب قرآنی آیا ت و سورتوں کا حفظ کروایا جا تاتھابلکہ زندگی گزارنے کا قرینہ بھی اسا تذہ اکرام سکھایا کر تے تھے۔بچپن میں مسجد میں دینی تعلیم کے دوران مولوی صاحب نے بتا یا کہ اللہ کے حضور روز محشر جب بندوں کو پیش کیا جا ئے گا تو اللہ بندے کی زبان پر مہر ثبت کر دیں گے اور اس کے اعضاء اور جوارح اس کی گواہی دیں گے کہ اس نے کیا کیا گناہ کیئے ہیں۔ گویا جسم کے ہر روئیں کو زبان عطاکر دی جا ئے گی ۔یہ بات ذہن میں اس طرح پیوست ہو گئی کہ اللہ کا جلال و قہر اور اس کی کبریا ئی بچپن میں جیسے نقش کر دی گئی تھی اس میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ابتداَ یہ با ت سمجھ میں نہیں آ تی تھی کہ اعضاء و جوارح کس طرح سے با ت کر یں گے اللہ رب العزت تو ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شئے اس کے قبضے قدرت میں ہے ۔لیکن عمر کے سا تھ کسی قدر علم سے آگہی پیدا ہوئی اور عمرانیات و نفسیاتی علوم کے مطالعہ کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ صرف زبان ہی گفتگو نہیں کر تی ہے بلکہ انسانی جسم بھی خاموش گفتگو انجام دیتا ہے۔اور جسم کی یہ گفتگو اتنی پر اثر ہو تی ہے کہ اسی گفتگو پر زبانی گفتگو اپنی تا ثیر بر قرار رکھتی ہے یا اپنا وقار گنوا بیٹھتی ہے۔ انسانی زندگی میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جہا ں وہ ایک لفظ زبان سے ادا کیئے بغیر اپنے جسم کے رویوں اور برتاؤ سے اپنا پیغام ترسیل کر دیتا ہے ان رویوں اور بر تا ؤ سے لوگ اندازہ قائم کر لیتے ہیں کہ وہ کیا کہنا اور کر نا چا ہتا ہے۔زبان انسانوں کے باہمی رابطے کا بنیادی ذریعہ ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی فکر اور تخیلات کی تر سیل کا کام انجام دیتے ہیں پیغام کی ترسیل میں زبان کے ساتھ لہجہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لہجہ دراصل الفاظ کی تشریح اور ترجمانی کا کا م انجام دیتا ہے یہ اہم نہیں ہو تا ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ یہ اہم ہو تا ہے کہ آپ کا لہجہ کیا کہہ رہا ہے۔لہجہ بھی زبان کا محتاج ہو تا ہے لیکن صرف ایک ایسی زبان ہے جو الفاظ و لہجہ کی محتاج نہیں ہے اور اسے باڈی لینگویج (غیر لفظی زبان)،خاموش زبان یا جسمانی اظہار کے نام سے معنون کیا جا تا ہے۔
عالمی سطح پر بیشمار زبانیں بولی اور سمجھی جا تی ہیں جن میں سب سے زیادہ بولی جا نے والی مینڈیرن (Mandarin) زبان سرفہرست ہے اس کے بعد ہسپانوی اور پھر انگریزی کا نمبر آتا ہے۔ہمارے ملک ہندوستان میں بھی کئی بولیا ں اور زبانیں رائج ہیں۔ان تما م زبانوں کے با وجود دنیا بھر میں صرف باڈی لینگویج ہی ایک ایسی زبان ہے جس میں اظہا ر کے لئے الفاظ و جملوں کی قطعی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔باڈی لینگویج یا جسمانی اظہار میں انسان کا پورا جسم زبان بن کر جذبات کی غمازی کر تا ہے۔آدمی کی خاموشی کے با وجود اس کی با ڈی لینگویج ( اس کا جسم )اس کے جذبات کی تر جمانی کر تی ہے اب اسے سمجھنے کا کام سامنے والے شخص کے فہم و فراست پر ہو تا ہے کہ وہ اس کی تعبیر و تفہیم میں کہاں تک کامیاب ہو ا ہے۔ عمرانیا ت اور علم نفسیات کے ماہرین کا اس با ت پر اجماع ہے کہ انسان اپنی با ت چیت کے اظہار کے لئے صرف تین فیصدزبان اور لہجے کو استعمال کر تا ہے جب کہ 97% اظہار کے لئے اپنے جسم جیسے ہاتھ ،پیر ،انگلیاں ،آنکھ ،چہرہ وغیرہ کو استعمال کر تا ہے۔
مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین محمد با بر ایک روز اپنے سرداروں کے ساتھ مصروف طعام تھا ۔اس نے دیکھا کہ ایک قوی الجثہ افغانی سردار شیر شاہ سوری خنجر سے دسترخوان پر رکھے ہو ئے گوشت کو نوچ نوچ کر کھا رہا ہے۔ اس بدتمیزی پر با بر جیسے عظیم المرتبت با دشا ہ کی پیشانی پر بل پڑگئے ۔ اس نے خادم کے کان میں شیر شاہ سوری کا سر قلم کر دینے کا حکم صادرکیا ۔شیر شا ہ، با بر کو خادم کے کان میں کانا پھوسی کر تے ہوئے دیکھ کر بھانپ گیا اور اپنا لباس خادم کو پہنا کر راہ فرار اختیار کی اور جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔بادشاہ کے خادموں نے شیر شاہ کے نوکر کو شیر شا ہ سمجھ کر قتل کر دیا۔بابر ایک قیافہ شناس تھا اس نے سردار کے جسمانی اظہار سے اس میں پلنے والے باغیا نہ طیور کا اندازہ قائم کر لیا تھا کہ وہ مستقبل میں سلطنت کے لئے ایک خطرہ بن جائے گااسی لئے اس نے اس کے قتل کا فوری حکم دیا ۔لیکن شیر شا ہ بھی قیافہ شناسی کا ماہر تھا وہ بادشاہ کی با ڈی لینگویج کو پڑھ چکاتھا کہ با دشاہ اس کے قتل پر آمادہ ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ شیر شاہ سوری نے با بر کی وفات کے بعد ہمایوں کو در بدر کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا۔یہ واقعہ علم قیافہ شناسی کی ایک ادنی مثال ہے۔موجودہ زمانے میں قیافہ شناسی کو باڈی لینگویج کے نام سے معنون کیا گیا ہے۔یہ ایک قدیم فن ہے جو صدیوں سے ہوتا ہو ا ہم تک پہنچا ہے۔
دور حاضر میں کئی افراد اس علم کو حا صل کر نے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔اور ایک کا میاب زندگی کے لئے یہ لا زمی ہے کہ ہم دوسروں کے متعلق معلومات حا صل کر نے کے بجائے خود اپنی ذات میں ڈوب کر اپنے رویوں اور بر تا ؤ کی اصلاح کر تے ہو ئے کا میابیوں کے زینوں کو طئے کرئیں۔ہم ہر با ر گھر سے با ہر نکلنے سے پہلے خو د کو آئینے میں دیکھ کر حسب ضرورت اپنے چہرے بال اور لباس کو درست کرلیتے ہیں اور اطمینان کے بعد ہی گھر سے با ہر نکلتے ہیں لیکن یہ کتنی بد قسمتی کی با ت ہے کہ ہم اپنے وضع قطع لباس اور با ل تو درست کر لیتے ہیں لیکن جسمانی اشارات و کنایات اور جسمانی اظہار رویوں کو درست کر نے یا پھر ان کو سیکھنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر کسی کو ہر کوئی پسند کر ے مقام و علاقوں کے اعتبار سے ان میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہو تی ہیں۔سیاہ فام افراد گورے رنگ والوں میں پذیرائی حا صل کر نے میں نا کام رہتے ہیں اس طرح سفید ود سرخ رنگ کو پسند کیئے جا نے والے علاقوں میں سیا ہ رنگ کو اہمیت نہیں ملے گی۔انہی امور کو پیش نظر رکھ کر ماہر علم نفسیات جوڈ جیمس(JUDE JAMES)کہتا ہے کہ جس طرح سے حسن اور خوب صورتی دنیا میں سمجھی اور دیکھی جا تی ہے با لکل اسی طرح انسانوں کی جسمانی زبان کو بھی سمجھا اور پر کھا جا تا ہے۔اپنی کتاب (BODY SPEAKS)میں جوڈ جیمس رقم طراز ہے کہ انسان کس طرح اپنے جسمانی حرکات کے ذریعہ غیر محسوس طریقے سے دوسروں تک پیغام رسانی کا کام انجام دیتا ہے جو ان پیغامات کو سمجھتا ہے وہ افراد کی شخصیت کا بخوبی اندازہ قائم کر لیتا ہے۔اسی وجہ سے ضروری ہے کہ ہم ان اشارات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان میں مناسب تبدیلیاں لائیں جیسا کہ انٹرویو دینے والا شخص کا اپنے ہا تھو ں کو باربار پکڑ لینا،نظریں نیچی رکھنا،اپنی ٹائی کی ناٹ کو درست کر نا ،باربار اپنی ناک کو کھجانا،حلق کو صاف کرنے کے لئے کھکھار ناواضح پیغام دیتا ہے کہ وہ ما یوسی کا شکار ہے۔جب کوئی اپنی جسمانی حرکا ت کے ذریعے پیغام رسائی کا کام انجام دیتا ہے تو اس زبان کو غیر لفظی زبان (باڈی لینگویج ) کہتے ہیں۔آپ کے مقابل جسمانی زبان کا ادراک نہیں رکھتے ہیں لیکن وہ با آسانی کسی بھی فرد کے بر تاؤ یا رویہ کا تجزیہ کر تے ہوئے اس کی شخصیت کا پتہ لگا لیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کسی شخص کے برتاؤ اور رویوں سے اس کی فطرت کا اندازہ قائم کر لیا جا تاہے۔
جسمانی پیغام رسائی کو ہم اکثر و بیشتر اسی لئے نہیں سمجھ پا تے ہیں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف قسم کی جسمانی زبانیں(BODY LANGUAGES) مستعمل ہیں۔کسی تمدن میں کوئی اشارہ اگر ہا ں کا اظہار ہوتا ہے توکہیں نہ کے لئے استعمال کیا جا تا ہے،رخصتی کے وقت کیا جا نے والا اشارہ کسی اور مقام پر خیر مقدم کا کام انجام دیتا ہے۔تجارت پیشہ ،سیاستدان حضرات اور مردم شناس افراد ابتدائے افرینش سے ان پیغامات کو سمجھتے آئے ہیں۔بیرون ممالک خدمات انجام دینے سے پیشتر اس زبان کی تر بیت حاصل کر نا کامیابی کے فیصد میں اضافے کا با عث ہوتا ہے۔جس طرح ایک عام آدمی کے لئے جسمانی زبان کی ترسیل و فہم مشکل ہے اسی طرح ما ہرین تعلیم کے لئے بھی یہ ایک نیا مضمون ہے اسی لئے یہ امر ایجوکیٹرس کے لئے اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس بات کا ادراک حاصل کر یں کہ جسم کے ذریعے کس طرح پیغام رسانی کا کام انجام دیاجا سکتا ہے بلکہ یہ بھی علم حا صل کر یں کہ بغیر گفتگو کے بھی پیغام رسائی کس طرح انجام دی جا سکتی ہے۔جسمانی حرکات و سکنات سے ہم سے جب کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو نہ صرف غلط فہمی کو جگہ دے گی بلکہ زندگی کے لئے ایک سنگین مسئلہ کا بھی سبب بن سکتی ہے۔باڈی لینگو یج خیر مقدم ،نشست و بر خواست ،چہرے کے تا ثرات ،لباس ،وضع قطع،آواز کا ارتعاش و آہنگ،آنکھوں کی حرکات،سماعت ،سانس لینا،دوسروں کے پاس کھڑے ہونا،مس کر نا یا چھونا،جسم کا دباؤ خاص طور پر جذباتی موقعوں پر محسوس کیا جا سکتاہے۔جہا ں جسم زبان سے زیادہ گفتگو کر تا ہے ۔ غیر لفظی گفتگو (NON VERBAL COMMUNICATION) کی اصطلاح بھی با ڈی لینگویج کے لئے استعمال کی جا تی ہے۔معروف ما ہر عمرانیات ایڈورڈ ٹی ۔ہال(EDWARD T, HALL) کے مطابق ایک عام گفتگو میں تقریبا 65% معاشرتی مطالب کی تر سیل غیر لفظی گفتگو باڈی لینگویج کے ذریعہ انجام دی جا تی ہے۔
دنیا بھر میں بالخصوص ایشیائی ممالک کے بہ نسبت شمالی امریکہ میں شعوری طور پر غیر لفظی گفتگو پر زیادہ انحصار کیا جا تا ہے۔جسمانی اظہار سے عدم واقفیت کی بنا ء پر اس کا غلط استعمال نہ صرف نا خوش گوار بلکہ خطرناک تجربات کا با عث ہو سکتا ہے۔1992 ؁ء میں جارج ڈبلیو بش آسٹریلیا کے سرکاری دورے پر گئے ہوئے تھے سڑک ے دونوں جانب آسٹریلیائی عوام ان کے خیرمقدم کے لئے کھڑی ہوئی تھی۔صدر نے عوام کے استقبال کے جواب میں اپنی دونوں انگلیوں سے ویV کا نشان اس طرح بنایا کہ ہتھیلی کی پشت عوام کی جانب کر دی۔دوسرے دن اخبار نے شہ سرخی لگائی کہ امریکی صدر نے وی کا نشان درست طریقہ سے نہ بتا کر آسٹریلیائی عوام کی تذلیل و تحقیر کی ہے۔ کسی خاص علاقے کی باڈی لینگویج سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہم اچھے مقاصد رکھتے ہوئے بھی پریشانی کا شکار ہو جا تے ہیں اسی طرح کا ایک اور واقعہ جو کہ با ڈی لینگویج سے واقفیت کی اہمیت سے ہم کو آگا ہ کر تاہے۔سال 1998 ؁ میں ایک نو شادی شدہ جوڑا اپنے ہنی مون کے لئے نیوزی لینڈ وارد ہو ا۔علاقائی ٹرایفک قوانین کی عدم واقفیت کی وجہ سے قانون شکنی کا مر تکب ہواپولیس عہدیداران نے بعد از وضاحت ان کو معاف کر دیا۔شکریہ کے طورپر خاوند نے پولیس عہدیدار کو انگوٹھا دکھایا۔نیوزی لینڈ میں انگوٹھا دکھانا ایک انتہائی معیوب فعل سمجھا جا تا ہے جس کی وجہ سے پولیس عہدیدار نے فی الفور اس شخص کو ہتکڑی پہنا دی اور گرفتار کر لیا۔اس واقعہ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مقام سے دوسرے مقام کے جسمانی اظہار کے طریقے مختلف ہو تے ہیں ایک مقام پر جس اظہار کو تہذیب کی علامت سمجھا جا تاہے وہ علامت دیگر مقامات پر معیوب قرار پا تی ہے۔اسی لئے زبانی گفتگو کی طر ح جسمانی اظہار میں بھی احتیاط لازمی ہے۔
مختلف ممالک میں بولی جا نے والی زبانوں کا علم جس طرح کامیاب کے امکانات کو روشن بنا دینے ہیں اسی طرح سے جسمانی کے طریقوں سے آگاہی بھی کسی فر د کی کامیابی میں اہم کردار نبھاتی ہے۔ARGYL کے مطابق سات لاکھ سے بھی زیا دہ جسمانی اظہار کے طریقے انسانوں میں پا ئے جا تے ہیں۔تمام دینا میں سر تا پیر جسمانی اظہار کے لئے استعمال کئے جا تے ہیں۔تقریبا معاشرے میں سر کی جنبش کو رضامندی کی علامت سمجھا جا تا ہے جبکہ یونان ،یوگوسلاویہ ،بلگاریہ اور ترکی وغیرہ میں سر کی خفیف سی جنبش کو نہیں کی علامت پر محمول کیا جا تا ہے۔ایشائی ممالک میں سر پر چپت لگانے کو نہایت معیوب تصور کیا جا تا ہے اور اس کو تحقیر بھی مانا جا تا ہے۔چہر ے کے تا ثرات سے جذبات کی عکاسی ہو تی ہے مغرب میں جذبات کا آزادانہ اظہا ر ایک حقیقت ہے جبکہ یہ عمل مشرقی روایا ت کی منافی کر تا ہے۔ تبسم و مسکراہٹ مشرقی ممالک میں خوشی کے اظہار کا وسیلہ ہے جب کہ اس طرح کا کوئی مفروضہ مغرب میں رائج نہیں ہے۔مغرب میں کسی بھی مسئلہ کی عدم اطمینان بخش تفہیم اور طنزیہ اظہار کے لئے بھی خفیف مسکراہٹ و تبسم کا استعمال عام با ت ہے۔نظرکا ملانا مغربی ممالک میں قابل ستائش عمل اور خود اعتمادی کی علامت ہے جبکہ افریقی اور ایشائی ممالک میں یہ ایک غیر مہذب فعل ما نا جا تا ہے۔ایشیاء اور افریقہ میں جس قدر آنکھوں جھکا کر رکھا جا ئے یا جس قدر آنکھوں کو ملانے سے احتراز کیا جا ئے گا اتنا ہی وہ شخص مہذب اور با حیاء تصور کیا جا تا ہے۔اْنکھوں کا موند لینا بھی کہیں قابل ستائش فعل تو کہیں حقارت کا با عث مانا جا تا ہے۔1975 ؁ء میں امریکہ کے نا ئب صدر والٹر منڈیل کو جاپانی ڈائیٹ (ایوان)سے خطاب کر نے کے لئے مدعو کیا گیا تو انھوں نے دیکھا کے ان کے خطاب کے دوران تقریبا ایوان کے ممبران کی آنکھیں بند تھیں جس پر نا ئب صدر نے اپنے سفیر سے کہا کہ انھیں یہاں کیوں بلایا گیا ہے جس پر سفیر نے دریافت کیا کہ آخر کیا معاملہ ہے نائب صدر نے بتا یا کہ ان کے خطاب کے دوران اکثر لوگ اپنے آنکھوں کو بند کیئے ہوئے تھے۔جس پر سفیر نے کہا کہ جا پانی اکثر انہماک کے حصول کے لئے اپنی آنکھوں کو بند کر لیتے ہیںآپ کی تقریر کی بہتر تفہیم کے لئے انھوں نے اپنی آنکھوں کو بند کر لیا تھا۔بوسہ با زی مغرب میں محبت اور شفقت کے اظہار کے وسیلہ ہے جب کہ مشرقی میں یہ فعل انتہا ئی معیوب سمجھاجا تا ہے اور بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے۔فلپائن ،لاطینی امریکہ PUERTO RICANاور دیگر لاطینی امریکن ممالک میں لوگ انگلی کے بجائے اشارے کے لئے ہونٹوں کو ہلاتے ہیں۔ہاتھوں کی جنبش اطالوی اور بعض کلچر میں بہ کثرت استعمال کی جا تی ہے جب کہ جاپان اور مشرقی ممالک میں بازوں کی حرکت کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا تا ہے۔ماہرین نفسیات نے چند ایسے اشارے دریافت کیئے ہیں جن کی بنا ء پر ہم بڑی حد تک کسی کے جھوٹ کو پہچان سکتے ہیں جن میں آنکھیں چرانا ،پہلوبدلنا،صفائی پیش کر نا (خطاوار سمجھے گی دنیا تجھے۔۔۔۔۔۔اب اتنی صفائی نہ دے) ،دفاعی انداز کو اپنانا،درمیان میں چیزوں کو رکھ دینا ،سر کھجانا،بات کے موضوع کو بدلناوغیر ہ جیسی حرکات سے بخوبی کسی کے جھوٹ کو پکڑا جا سکتا ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی پر وفیسر ایلس فوسٹر نے باڈی لینگویج کو دور حاضر میں کامیاب کا ایک نسخہ قرار دیا ہے ۔انسان لاکھ کوشش کر نے کے با وجود موقع کی مناسبت سے چند سکینڈ میں ایسے جا مع مدلل اور خوب صورت الفاظ جمع نہیں کر پا تا جس کی ادائیگی سے حسب منشاء نتائج حا صل کیئے جا سکیں جب کہ چند سیکنڈ کا پر جوش مصافحہ توقعات سے بڑھ کر نتیجہ خیز ثابت ہو تا ہے۔لیکن اس کے بر خلاف گونگے چہروں کے مالک جن کے چہروں پر کو ئی تاثر نہیں ابھرتا انتہائی گہرے ہوتے ہیں ان کی منصوبہ بندی بے لچک اور سخت ہوتی ہے یہ فیصلے کر نے کے بعد واپس نہیں لیتے خواہ وہ برباد ہی کیوں نہ ہوجائیں۔جو لوگ دوسروں کو بولتے ہوئے غور سے سنتے ہیں یہ اپنی ذات میں خوفنا ک آمر ہوتے ہیں۔جو لوگ انتہائی کامیابی پر پہنچ کر بھی چھوٹے معاملوں میں ہر قسم کے لوگوں سے مشورہ کر تے ہیں یہ ہمیشہ چونکادینے والے فیصلے کر تے ہیں۔ہنس مکھ اور سنجیدہ قسم کے لوگ بڑے فیصلے لینے سے قبل اکثر اپنے روٹین تبدیل کر دیتے ہیں۔قیافہ شناسی یا باڈی لینگویج ایک طویل فن ہے جس کا ایک مضمون میں احاطہ کیا جا نا نا ممکن ہے۔آج کل یورپ اور تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں زبانی اظہا ر کی بہ نسبت جسمانی اظہار کو زیادہ موثر مانا جا رہا ہے۔کیونکہ ڈھیروں الفاظ میں سے خوب صورت اور مناسب الفاظ کا انتخاب بہت ہی مشکل ہے جب کہ یہ کام محض ایک مسکراہٹ سے پر جوش انداز میں ہا تھ ملاکر یا گلے مل کر انجا م دیا جا سکتا ہے۔
دراصل جسمانی اظہار ایک با قاعدہ فن ہے جس سے ابھی کم لوگ روشناس ہیں۔جو لوگ باڈی لینگویج کے فن سے آشنا ہیں وہ مقابل کی ایک خفیف مسکراہٹ سے اس کے دل کا حال پڑھ لیتے ہیں لیکن اس فن میں طاق افراد دوسروں کو بہ آسانی دھوکا بھی دے جا تے ہیں۔باڈی لینگویج ایک بے حد قدیم فن ہے لیکن اس کے با رے میں با قاعدہ تحقیقات بیسویں صدی کے وسط میں تب شروع ہوئی جب ’’حرکات و سکنات کا ایک تعارف‘‘ کے عنوان سے رے برڈوسٹل کی ایک کتاب بازار میں آئی اس کے بعد اس موضوع پر کئی کتا بیں منصہ شہود پر آئیں جس میں نینی آر مسٹرونگ کی ’’انسانی چہروں کے تا ثرات کو
کسیے پہچانے اور دوسروں تک پہنچائیں‘‘ کتا ب کی کا فی پذیرائی ہوئی۔آج با ڈی لینگویج دنیا بھر میں اظہار رائے کا ایک مستند طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ طریقہ اظہار مستعمل نہیں تھا جب کہ آج کامیابی کی پہچان بن گیا ہے۔اس فن میں با قاعدہ مہارت کے لئے ماہرین نفسیات کی تحریر کر دہ کتا بوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔اب اس با ت میں کوئی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ خود کو منوانے اور کامیابی کے زینہ طئے کر نے میں یہ فن مددگار ثابت ہو رہا ہے۔مسکراہٹ اور گرم جوشی اس کے بنیادی ستون ہیں۔اگر ہم کو ان کے صحیح استعمال سے آشنائی ہو جائے تو کامیابی کی منازل خود بخود طئے ہوجائیں گی۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں