موبائل فون اور انٹر نیٹ۔۔۔۔ ایک سہولت جو خرا بی بنی ہے 

موبائل فون اور انٹرنیٹ دور جدید کی چند ایسی اہم ایجاد ات میں سے ہے جس نے انسانی زندگی کا رخ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ بیس پچیس سال کے قلیل عرصے میں ساری دنیا موبائل فون اور انٹرنیٹ کے زیر تسلط آچکی ہے۔ گویا ساری دنیاموبائل فون اور انٹرنیٹ کے زلف گرہ گیر کی اسیر ہوچکی ہے۔کیا چھوٹاکیا بڑا، کیامرد کیا عورت،تاجر و مزدور،آجر و ملازم ہر کوئی اپنے آپ کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کے بغیر ادھورا محسوس کرنے لگاہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے معلومات کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب امڈتا چلا آرہا ہے جسے ہم انفجار علم (Knowledge Explosion)کہہ رہے ہیں۔معلومات کے اسی سیلاب(انفارمیشن ٹیکنالوجی) کی وجہ سے ساری دنیا آج آپس میں باہم مربوط ہوچکی ہے۔ اسی باہم ارتباط کی وجہ سے دنیا کوایک عالمی قریہ ،گاؤں(Global Village)کا درجہ حاصل ہوگیاہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی وجہ سے اطلاعات اور معلومات تک رسائی و ترسیل کا ایک ایسا انقلاب دیکھنے میں آیا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال تک نہیں ملتی۔دیگر اشیا ء کی طرح موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی بے شمار فوائد کے ٖساتھ اپنے میں نقصان و ضرر کے پہلو لئے ہوئے ہے۔انٹرنیٹ اور موبائل فون یقیناآج کی اہم ایجادات میں شامل ضرور ہیں لیکن نقصان رسائی والے پہلوؤں کی بنا پر انسانی زندگیوں کے لئے یہ سوہان روح اور مہلک بنے ہوئے ہیں۔بالخصوص نوجوانوں میں ناسور کی طرح پھیلتی بے چینی ،بے راہ روی اور دیگر معاشرتی مسائل کے سر اٹھانے میں انٹرنیٹ اور موبائل کے بے جا اور غیر ضروری استعمال کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔معاشرتی انحطاط اور نوجوانوں کی بے راہ روی کی بنیادی وجہ دینی تعلیمات سے دوری ہے۔بچوں کی بلو غت کا دورخاص طور پر نگہداشت اور تربیت کامتقاضی ہوتا ہے۔ یہی وہ خطرناک عمر ہیجہاں کسی بھی بچے کے بگڑنے اور سدھرنے کے یکساں امکانات پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس عمر میں بچوں کی دلچسپیوں اور ان کے مشاغل پر خصوصی نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس نوخیز عمر میں وقت اور اشیاء کے مناسب استعمال اور ترجیحات کی تعلیم اہم ہوتی ہے۔زندگی کے اس نازک موڑ پر اگر نوجوانوں کو اسوہ رسول اکرم ؐسے آگاہ کردیا جائے اور اسوہ حسنہ کو بطور ماڈل اپنانے کی تعلیم وترغیب دی جائے تو یہ انٹر نیٹ اور موبائل فون جو اپنے آپ میں بربادی اور ہلاکت کے سامان چھپائے بیٹھے ہیں انسانیت کی فوز و فلاح کا ذریعہ بن جاسکتے ہیں۔انٹرنیٹ اور موبائل فون کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل (لڑکے اور لڑکیاں)مخرب اخلاق اور منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوکراپنا قیمتی وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتیں ضائع کر رہے ہیں۔والدین ،سرپرست اور دیگر بزرگ حضرات موبائل کے مثبت استعمال پر نوجوان نسل کی مخالفت نہ کریں۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کا مثبت اور تعمیری استعمال بلاشبہ مفید اور وقت کی ضرورت ہے، لیکن اس کے غلط اور منفی استعمال کو کسی بھی طور پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔انٹر نیٹ اور موبائل کے استعمال کے دوران درست اور جائز کا فیصلہ کرنا بہت ہی اہم ہوتا ہے ۔پختہ عمر کے لوگوں کے لئے یہ بہت ہی آسان کام ہوسکتا ہے لیکن بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھنے والی نئی نسل کے لئے اس کے منفی پہلوؤں اور منفی استعمال سے بچنا تقریباً ناممکن ہے ۔نوجوان نسل کو تباہی کے اس گڑھے سے بچانے کی ذمہ داری والدین،اساتذہ،میڈیا اور بحیثیت مجموعی تمام معاشرے پر عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کی عمر کے اس نازک دور میں رہبری اور رہنمائی کا سنجیدگی اور سرگرمی سے مظاہرہ کریں۔

بچوں کو موبائل فون کب دیں؛۔

ماہرین نفسیات( کلینکل سائیکولوجسٹ ) کے مطابق بچوں کو موبائل فون دینے کی درحقیقت کوئی خاص عمرمتعین نہیں ہے لیکن سب سے اہم چیز بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون دینے سے قبل ان کی سماجی اور ٹیکنالوجی سے آگہی(Social and Technology Awareness) کا جائزہ لینا ضروری ہوتاہے۔کلینکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر ببرک کے مطابق والدین کے لئے بچوں کو موبائل فون دینے سے قبل درجہ ذیل امور پر نظر رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔
(1)والدین کو اس بات کا علم ہو کہ کیابچہ اپنی چیزوں کی حفاظت کے قابل بھی ہوا ہے یا نہیں۔ کیا بچے کو اپنی چیزیں کھو نے ، بھولنے یا چھوڑکر آنے کی عادت تو نہیں ہے۔ قصہ مختصر اگر اسے کسی شئے کے قیمت اور اہمیت بتائی جائے تو کیا وہ اس کی حفاظت کرنے کا اہل بھی ہے یا نہیں۔
(2)کیا بچہ کسی بھی فضول شئے یا فضول خرچی اور فضولیات سے خود کو محفوظ رکھنے کا متحمل ہے یا نہیں۔
(3)کیا بچہ سماجی خطرات (Social Cues)کا ادراک رکھتا ہے۔مثلاًکیا وہ لوگوں کی باڈی لینگویج (جسمانی اشارات)،انداز گفتگو،لب و لہجہ،دوران گفتگو لوگوں کی جانب سے استعمال کیئے جانے والے ذومعنی الفاظ کے مطالب،حرکات و سکنات چہرے کے تصورات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔
(4) کیا بچہ گفتگو کے آداب سے واقف ہے؟ اگربچہ گفتگو کے آداب نہیں جانتا ہے تو یہ کمی آگے چل کر اس کے لئے میسجنگ اور سوشل میڈیا پر انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
(5) ٹیکنالوجی کے بارے میں بچے کی سوجھ بوجھ کتنی ہے ۔وہ جو کچھ پوسٹ کر رہا ہے کیا اس سے وہ باخبر ہے۔کیا اسے علم ہے کہ وہ جو کچھ پوسٹ کر رہا ہے اسے کون کون دیکھ سکتے ہیں۔کیا بچے کو اس بات کا علم ہے کہ اس کی سوشل میڈیا ایکٹیویٹی پر دوسروں کی نظر رہتی ہے۔
(6)کیا بچہ اسکرین ٹائم کے اصولوں کا پابند ہے یا نہیں ۔کیا انٹرنیٹ اور موبائل فون سے مقررہ وقت کے بعد گلو خلاصی حاصل کرنے میں اسے دقت کا سامنا ہے یا نہیں۔ بچے کمپیوٹر گیمز ،موبائل فون یا ٹی وی اسکرین سے ہر وقت چپک کر رہنے لگ جائیں تو آگے چل کر ان کو موبائل فون سے دور کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔
بچوں کے ہاتھوں میں موبائل تھامانے سے قبل مذکورہ بالا امور کی جانچ کرنے سے والدین اپنی اولاد کو موبائل فون اور انٹرنیٹ سے درپیش خطرات سے کماحقہ بچانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
موبائل فون کے نقصانات؛۔موبائل فون دیکھنے میں تو ایک چھوٹی سی مشین ہے لیکن اس کے حیرت انگیز کارکردگی کے سبھی قائل ہیں۔اگرا سے عمر عیار کی زنبیل جمشید بادشاہ کا جام جم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔موبائل اور انٹرنیٹ جس قدر سود مند ہیں وہیں اس کے بے جا استعمال سے معاشرے کو کئی ایک مسائل اور چیالنجس کا سامنادر پیشہے۔موبائل فون ضرورت کے بجائے آج فیشن اور سماجی حیثیت ( اسٹیٹس سیمبل) کی ایک علامت بن کر رہ گیا ہے۔عوام پر بلا وجہ مہنگے اور جدید سے جدیدتر ماڈلس کے فونس خریدنے کا خبط سوار ہے۔بلاضرورت فونس کی خریدی نے عوام کو فضول خرچی کی لعنت میں گرفتار کر دیا ہے۔موبائل فون کا بے جا اور حد سے زیادہ استعمال ، ذہنی بیماریوں،نیند کی کمی،عوارض قلب ، نظر کی خرابی، سر دردوغیرہ جیسی کئی بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہورہا ہے۔موبائل فون کے ذریعے فحاشی اورعریانیت بھی سماج میں پھیلنے لگی ہے۔موبائل فون کے احمقانہ استعمال کی وجہ سے طلبہ کی پڑھائی کا بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے۔موبائل فون کا بے جا استعمال کرنے والے طلبہ مختلف کاموں(Multi Tasking) کو انجام دینے کی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتے ہیں ۔تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو طلبہ موبائل فون کا استعمال نہیں کرتے ہیں ان کا حافظہ بہتر کام کرتا ہے اور وہ معلومات کو بہتر طریقے سے یاد رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔سرچ انجن کے استعمال کی وجہ سے بچوں میں خود سے کسی مسئلے کا حل ڈھونڈنے کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔ ویڈیو گیمز ،ٹی وی ،انٹرنیٹ اور موبائل پر گھنٹوں صرف کر نے کی وجہ سے بچے جسمانی کاہلی اور ذہنی تھکاوٹ کا شکار ہورہے ہیں ۔ان کی تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑرہی ہیں۔مسلسل انٹرنیٹ اور موبائل کے استعمال کی وجہ سے بچوں کی صحت متاثر ہورہی ہے۔ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے سے خون کی روانی میں کمی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچے کم عمری میں ہی ذیابطیس اور ہارٹ اٹیک جیسی بیماریوں میں گرفتار ہورہے ہیں۔دوران مطالعہ کمرۂ جماعت یا گھر میں موبائل فون استعمال کرنے سے طلبہ کے انہماک اور توجہ میں حد درجہ خلل ریکارڈ کیا گیا ہے۔کیلیفورنیا کے شعبہ پبلک ہیلتھ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کیرن سمتھ کے مطابق’’بچوں کے ذہن کی نشو نما جوانی میں ہوتی ہے اور موبائل کے زیادہ استعمال سے اس پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کو زیادہ موبائل فون استعمال نہ کرنے دیں اور رات کو فون بند کر دیں۔‘‘ کیلیفورنیا کے شعبہ پبلک ہیلتھ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جب موبائل فون سیل ٹاور سے سگنل موصول کرتا ہے یا موبائل سگنل بھیجتا تو موبائل فون سے ریڈیو فریکوئنسی انرجی خارج ہوتی ہے جو انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔موبائل فون اور انٹر نیٹ کے استعمال سے جسمانی اور نفسیاتی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن (WHO)کے مطابق WiFi، موبائل، لیاپ ٹاپ، آئی پیڈ کے زیادہ استعمال سے کینسر، دماغی ٹیومر، Autism ، شوگر، دائمی تھکاوٹ، تیز بخاراور ڈپریشن جیسی خطرناک بیماریوں کے لاحق ہونے کے اندیشے بڑھتے جارہے ہیں۔ ہیڈ فونز کی وجہ سے سماعت اوراسکرین سے خارج ہونے والی شعاعوں(Rays)کی وجہ سے بصارت متاثر ہورہی ہے۔انٹر نیٹ اور موبائل کی قباحتوں کی وجہ سے اس سے نفرت کرنا خلاف دانش بات ہے عقل مند انسان وہ ہے جوکسی بھی شئے سے مفید کو لے مضر کو چھوڑ دے۔موبائل اور انٹرنیٹ کے غلام بننے کے بجائے وقت ضرورت اس کے استعمال کی اچھی عادت کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔
انٹرنیٹ اور موبائل فون کے بے جا استعمالسے انسان تنہائی پسند ہو کر رہ گیا ہے۔سوشل میڈیا پر جن کے ہزاروں دوست ہوتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں ان کا کوئی پرسان حال، دوست اور غم خوار نہیں ہوتا۔کڑے وقتوں پر ایسے افراد کا نفسیاتی عوارض میں گرفتار ہونا اور مایوسی کا شکار ہونا ایک فطری امر ہے۔انٹرنیٹ اور موبائل کی وجہ سے خاندانی تانے بانے بکھرنے لگے ہیں۔موبائل کے بے جا استعمال نے والدین کو اولاد سے،شوہرکو بیوی سے ،اولاد کو ماں باپ سے گھر میں رہتے ہوئے بھی گفتگو شنید سے محروم کر دیا ہے۔ یہ بہت ہی قابل تشویش پہلو ہے کہ بچوں کو کمپیوٹر، موبائل گیمز اور انٹرنیٹ سے فرصت نہیں،ماں باپ کو اپنی نوکری اور سوشل میڈیا کے دوستوں سے فرصت نہیں ۔انٹرنیٹ اور موبائل کے بے جا استعمال کی وجہ سے ہم نے بچوں کی صحیح تربیت ،رشتے داروں کے حقوق و صلہ رحمی اور ازدواجی حقوق کو پس پشت ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ تیزی سے تنزل کی جانب گامز ن ہے۔رشتے داریاں ختم ہونے لگی ہیں اور خاندان بکھرنے لگے ہیں۔
موبائل اور انٹر نیٹ کے فوائد:۔کسی بھی چیز کے مثبت ا ور منفی دو پہلو ہوتے ہیں ۔ با لفاظ دیگر ہر انسانی ایجاد میں افادیت کے ساتھ نقصان کا بھی اندیشہ پایا جاتا ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی دیگر اشیا ء کی طرح بذات خود کوئی نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں جب تک ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔انٹرنیٹ اور موبائل فون انسانی استعمال کے محتاج ہیں۔جب ہم اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں یہ فائدہ مند ہوں گے اورجب ہم اپنے مقصد سے انحراف کرنے لگیں تب یہ نقصان کا سبب بن جائیں گے۔سطور بالا میں موبائل فون کو عمرعیار کی زنبیل اور جام جمشید سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ اس میں زندگی سے وابستہ تمام تر معلومات پنہاں ہیں۔موبائل فون بیک وقت فون،ٹی وی،کمپیوٹر،ریڈیو،الارم ،کیلکیولیٹر،ٹیپ ریکارڈر،کیمرہ،ویڈیو کیمرہ اور نہ جانے کیا کیا کام انجام دیتا ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیا جہاں کی معلومات ایک جنبش میں آپ کی نذر کردیتا ہے۔ ہیمبرگ یونیورسٹی کے ہا نس بریڈو انسٹیٹیوٹ میڈیا ریسرچ سنٹر (Hamburg University,Hans Bredow Institute for Media Research)کے ہینرک شمٹ(Henrik Schmidt)کے مطابق انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے لئے ایک وجہ ہی کافی ہے کہ اس نے تکنیکی نوعیت کے مسائل دور کر کے تمام کاموں کی انجام دہی کو بہت ہی سہل بنا دیا ہے۔ شمٹ کے مطابق یہ ایک سیدھا سا اصول ہے کہ کہ انٹرنیٹ جتنا زیادہ لوگوں کو سہولیات مہیا کرے گا، لوگ اتنا ہی زیادہ اس پر وقت صرف کریں گے۔انٹرنیٹ پر تقریبا 35کروڑ ویب سائٹس موجود ہیں جن میں سے اکثر ویب سائٹس بہت ہی مفید اور کارآمد ہیں۔مذکورہ ویب سائٹس میں صرف 2فیصد یعنی 70لاکھ فحش ویب سائٹس موجود ہیں۔یہ حقیقت بھی ایک عبرت ،حیرت اور صدمے سے کم نہیں ہے کہ نوے فیصد انٹر نیٹ صارفین اسی دو فیصد ویب سائٹس کو وزٹ (دیکھتے ) کرتے ہیں۔انسٹیٹیوٹ برائے میڈیا اینڈ آن لائن اڈِکشن (Institute for Media and Online Addiction) کے بیرنڈ بیرنر کے مطابق بوریت اور لوگوں سے دوری ہی آدمی کو انٹرنیٹ کی جادوئی دنیا کی جانب راغب کررہی ہے۔بیرنڈبیرنر کے بموجب ایک ہفتے میں 35گھنٹے سے زیادہ وقت انٹر نیٹ پر صرف کرنا زیادتی کے زمرے میں آتا ہے لیکن میری نظر میں 35گھنٹے کی رعایت مغربی ممالک کے لئے مناسب معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے کام اور پیشے کی ضرورت کے مطابق اس کا استعمال کرتے ہیں۔ہمارے مذہب اور دین کے مطابق ہر لغو کام سے بچنا ضروری ہے ۔انٹرنیٹ اور موبائل بھی جب ضرورت ہو تب ہی استعمال کریں ورنہ یہ بھی اصراف کے زمرے میں آئے گا جس کا ہمیں جواب دینا پڑے گا اگر اس کا استعمال ایک منٹ کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔نیوز پورٹلس اور سوشل میڈیا جیسے فیس بک ،ٹوئیٹر،واٹس ایپ وغیرہ یہ کارآمد ثابت ہونے کے بجائے تضیع اوقات کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں ۔پروفیسر ،صحافی، اسکالرس مذہبی علما،طلبہ مرد و خواتین ہر کس و ناکس اس لتمیں گرفتار ر نظر آتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر ایسے لایعنی بحث و مباحث ہوتے ہیں جس کی کوئی اہمیت اور افادیت نہیں ہوتی، بلکہ یہ تضیع اوقات کا سبب بن گئے ہیں۔موبائل اور انٹر نیٹ کو حصول علم اور ترسیل علم کے لئے ایک کارگروسیلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جہالت اور جعلی علم کی نفی کی جاسکتی ہے۔عوامی بیداری کے لئے موبائل اور انٹرنیٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
والدین اور سرپرستوں کے فرائض؛۔قرآن فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘(سورہ تحریم آیت 6)اورحدیث مبارکہ ہے کہ ’’تم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی نگہبانی کے متعلق پوچھاجائے گا۔اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی نگہبانی کے متعلق پوچھا جائے گا‘‘۔والدین اور سرپرست حضرات اپنے نونہالوں اور افراد خاندان کی تربیت کا خاص اہتمام کریں تاکہ اپنے آپ کو اور افراد خاندان کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھ سکیں۔گھر کے کچھ اصول و ضوابط مقررکریں۔گھر کے تمام آلات (ڈیواسس) خاص طور پر بچوں اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کے فونس ،لیاپ ٹاپ ،کمپیوٹر،آئی پیڈ وغیرہ پر Parental Controlلگائیں۔ان آلات میں ایسے سوفٹ ویرس کو انسٹال کریں جو مخرب اخلاق اور غلط مواد تک ان کی رسائی کو روک دے۔موبائل،انٹرنیٹ،کمپیوٹر،لیاپ ٹاپ وغیرہ کے استعمال کے اوقات مقرر کریں اور خود بھی اس کی پابندی کریں۔بچوں کو اسمارٹ فونز،آئی پیڈس،لیاپ ٹاپ وغیرہ کے بہتر اور مفید استعمال کی ترغیب دیں۔ بچوں کو جدید آلات(Modern Gadgets) پر ایسی مصرفیات فراہم کریں کہ وہ ان کے غلط استعمال سے باز رہیں۔وقت ضرورت ہی بچوں کو موبائل دیں اور ایسے کسی بھی جدیدآلات (Modern Gadgets) جس کی ضرورت نہ ہوں گھر نہ لائیں۔
موبائل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے نوجوان نسل بے حیائی اور اخلاقی بگاڑ کا شکار ہورہی ہے۔سوشل میڈیا کی جانب سے اخلاقی بگاڑ کے علاوہ بچے مذہب سے متنفر ہونے لگے ہیں۔فیس بک،واٹس ایپ کی لعنت بچوں اور بڑوں سے نشے کی لت کی طرح چمٹ گئی ہے ۔نامعلوم لوگوں سے دوستی بچوں کو کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ موبائل فون،انٹر نیٹ فیس بک ،واٹس ایپ وغیرہ بچوں کے ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں پر قدغن لگارہے ہیں۔والدین اور سرپرست حضرات افراد خاندان کے سوشل میڈیا آئی ڈیز کی وقتافوقتا جانچ کرتے رہیں ۔ نوجوان نسل کی دینی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں بچوں کو اخلاقی بگاڑ اور سماجی خرافات سے بچانے کے لئے دینی تربیتکو لازمی بنائیں کیونکہ دینی فکر سے انسان اچھے اور برے میں تمیز کے لائق بنتا ہے۔اقبال ؒ فرماتے ہیں
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں