ڈراموں کے ذریعے اخلاقی قدروں کی پامالی کیوں؟

کئی دنوں کے بعد موقع ملا کہ نسبتاً تسلی سے ریموٹ ہاتھ میں تھام کے چینل گردانی کی جائے، ایسے میں  ڈرامہ پکار میں اداکارہ یمنٰی زیدی اے آر وائی پہ نظر آئیں ، سفید لباس میں روتی بین کرتی بیوہ کے روپ میں ،شوہر کا التفات  اور اس کی محبت یکے بعد دیگرے مناظر کی صورت میں ثمرہ کے ذہن کے ساتھ ساتھ پردہِ سیمیں پر بھی ابھرتے چلے گئے، اور ہمیں اپنے صاحبزادے کے احساس دلانے پہ معلوم ہوا کہ یمنیٰ نے ثمرہ کے روپ میں بھلے ہی مصنوعی آنسو بہائے ہوں لیکن ہمارے چہرے کو حقیقی آنسو بھگو رہے تھے، یہ خبر سکھر کے دورے پہ نکلے ہوئے شوہرِ نامدار تک بھی تیزی سے پہنچا دی گئی ، اور فوراٍ ہی وہاں سے فون بھی آ گیا، حد کرتی ہو یار، یہ کوئی رونے والی بات ہے،مرد کی سرزنش میں چھپی محبت کو ڈھونڈ کو محسوس کر لینے کا گر عورت سیکھ لے تو زندگی گلزار ہو جائے ، بہر حال اس منظر نے ہمیں کچھ ایسا جکڑا کہ اس کہانی کو شروع سے جاننے کی خواہش پیدا ہوئی ، اس ڈرامے کے مصنف  عدیل رزاق ہیں ،جو اس سے پہلے  ہم ٹی وی پہ چلنے والی  ایک  ڈرامہ سیریز میں انتہائی متنازعہ موضوع پہ ڈرامہ بھی لکھ چکے ہیں۔  ہدایتکار فاروق رند ہیں، جن کے مشہور ڈراموں میں ،محبت تم سے نفرت، بے شرم، گلِ رعنا، لا ،رشتے کچھ ادھورے سے اور جگنو شامل ہیں ۔ جن لوگوں نے ان ڈراموں کو ذرا گہری نظر سے دیکھا ہے انہیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ   ان میں سے اکثر کہانیاں ہمارے معاشرے  میں عورت سے سلوک اور اسکی حیثیت کو قابلِ رحم انداز میں پیش کرتی ہیں، یقیناً اس میں کسی حد تک حقیقت بھی شامل ہوتی ہے ،لیکن اس حقیقت کو اس اندز میں بیان کرنا کہ اسکے منفی پہلو ساری مثبت باتوں کو کمال مہارت سے نگل لیں یہ بہر حال انصاف  کے تقاضوں کے خلاف ہے۔

بنیادی طور پہ یہ کہانی ثمرہ  کے گرد گھومتی ہے جو اپنے “روشن خیال” ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہے، اور اسی روشن خیالی کا ثبوت دیتے ہوئے  والدین ثمرہ کی شادی اس کی پسند سے کر دیتے ہیں، شوہر کا تعلق ایک خالص جاگیردار گھرانے سے ہوتا ہے جو اپنے گاؤں میں سیاست میں بھی سرگرم ہوتے ہیں،اور پیر بھی مانے جاتے ہیں ،لڑکے کا باپ اس خیال سے پہلی بار خاندان سے باہر کی بہو لانے پہ تیار ہوتا ہے کہ بیٹا جو  تعلیم حاصل کرنے کے نتیجے میں ،جاگیرداری نظام کے نقائص ،پیری فقیری کی مذموم روایات  اور سیاست کے غلط استعمال سے خائف ہو کر اس سب سے دور رہنا چاہتا ہے، وقت پڑنے پر وہ اس احسان کا حوالہ دیتے ہوئےاسے اپنی ڈگر پہ چلایا جا سکے۔ثمرہ کو شادی کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا سسرال حقیقتاً کس پس منظر سے تعلق رکھتا ہے، رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی عورت ،کا کن کن مراحل پہ کس کس طریقے سے استحصال ہوتا ہے،اس ڈرامے میں  بلا شبہ اس کی عکاسی کرنے کی اچھی کوشش کی گئی ہےلیکن۔۔۔۔۔۔۔المیہ یہ ہے کہ یا تو  ہمارے تعلیم یافتہ،باشعور اور منجھے ہوئے لکھاری اور ہدایت کار ، معاشرتی برائیوں اور جاگیردارانہ نظام کی خرابیوں کو اسلام کے اصولوں سے الگ نہیں کر پاتے یا ایسا  کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے یا  جان بوجھ کر نظام کی خرابیوں کو اسلام کے اصولوں کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں۔

مثال کے طور پہ آزاد خیال  ثمرہ جب شادی کےبعد پہلے دن اپنے شوہر کے ہمراہ نکلتی ہے تو اسے چادر اوڑھنے کے لیے پیش کی جاتی ہے ،ایک جھٹکے سے اس چادر کو تھامتی ثمرہ اپنے شوہر کی جانب اشارہ کرتی ہوئی ملازمہ سے کہتی ہے کہ “یہ بھی میرے ساتھ باہر جا رہے ہیں ،ان کے لیے بھی کچھ لے آئیے”سننے والا، دیکھنے والا، پڑھنے والا آرام سے بتا سکتا ہے کہ اس جملے میں اسلام کی جانب سے فرض کیئے گئے حجاب کے حکم پر کس قدر دیدہ دلیری کے ساتھ حملہ کیا گیا ہے۔ اس کی ماں کا مکالمہ ” ثمرہ میں اور تمہارے بابا تمہیں اتنی بڑی چادر میں دیکھ کر شاکڈ رہ گئے”

اسی طرح سسرال میں مردان خانے اور زنان خانے کے علیحدہ ہونے کی روایت کو جس طرح برے انداز میں پیش کیاگیا ہے وہ بھی قابلِ غور ہے۔

ثمرہ کو ایک مضبوط اور بہادر عورت کے روپ میں پیش کیا گیا ہے جو اپنے حق کے لیئے آواز اٹھانا جانتی ہے،  اور اپنے نظرئیے کے مطابق صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ہرگز نہیں مانتی،یہ نہایت اچھی بات ہے  کہ پیری فقیری میں معتقدین کے ہاتھ چومنے، زمین پر بیٹھنے کو وہ اعلانیہ غلط کہتی ہے، اور ہر ممکن طور پہ خود کو اور اپنے شوہر کو اس گناہ میں مبتلا ہونے سے روکتی ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ثمرہ کے شوہر کے انتقال کے بعد  عدت کو جس طرح سے ایک جاگیردار خاندان اپنی روایات  کی آڑ میں مسخ کرتا ہے،وہ افسوسناک ہے، ہمارا کہنا یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایسا نہیں ہوتا ہو گا، لیکن مصنف اور ہدایتکار کی یہ معاشرتی ،اخلاقی اور دینی ذمہ داری تھی کہ انہی مکالموں کے ذریعے وہ عدت کا اصل مقصد ،اسلام کے اس حکم میں چھپی مصلحت اور عورت  کے حق میں اسکی افادیت کو واضح کرتے ،کاش آپ اس میں کوئی ایسا مکالمہ بھی رکھتے جس میں کھل کے بتایا جاتا کہ اسلام عدت کے حکم سے عورت کی عزت نفس اور اسکی عفت و عصمت کی کس طرح حفاظت کرتا ہے، اسکے برعکس مکالموں کی نوعیت ملاحظہ فرمائیے۔

 مختلف مکالموں اور مناظر کے ذریعے ثمرہ سے پوری طرح  ناظر کے دل میں ہمدردی پیدا کرکے جو پنچ لائن دی جاتی ہے وہ کچھ یوں ہے” عدت نہ ہوئی کالے پانی کی سزاء ہو گئی” ،” اور تمہیں معلوم ہے کہ انہوں نے عدت عدت کی رٹ کیوں لگائے رکھی ہے؟ تاکہ اسی عرصے میں معلوم ہو کہ تم پریگننٹ ہو یا نہیں؟اور ایسا ہوا تو اس کا صاف مطلب ہے عمر قید ” کیا یہ ممکن نہیں تھا اسی وقت کسی کردار سے یہ مکالمہ بھی کہلوایا جاتا کہ عدت تو عورت کی حفاظت کی فصیل ہے کالے پانی کی سزا تو  یہ بے جا روایات  ہیں جو زبردستی عدت سے منسوب کر دی گئی ہیں ۔کتنا اچھا ہوتا ہے وہیں کسی کردار کے ذریعے اسلام میں موجود بیواؤں کے حقوق کا بھی ذکر ہو جاتاجنہیں عدت کے بعد آزادی سے نکاح کرنے کی اجازت حاصل ہے، اور یہ کہ اسلام میں بیوہ اور طلاق یافتہ عورتوں کی دوسری شادی کا خصوصی حکم دیا گیا ہے۔

 ہمہ وقت ہاتھ میں تسبیح پکڑی لڑکے کی دادی کا کہنا ہے” ایک بیوہ کو جتنا کھانا ملنا چاہیئے اتنا اسے مل رہا ہے” “عدت میں بیٹھی عورت اس کمرے کی دہلیز پار نہیں کر سکتی”کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہی پر اعتماد ثمرہ اپنی دادی ساس کو یاد دلا دیتی کہ اسلام میں عدت کے اصول کیا ہیں،  اسی طرح  تمام ظلم و ستم کرنے والی دادی  ساس لڑکی کو نماز کی تلقین کرتی ہیں، اس منفی کردار کے ساتھ دین کو جوڑنے کا آخر مطلب کیاہے؟ یہ سب ارادتاً ہے یا غیر ارادی؟ اس کا جواب تو مصنف اور ہدایتکار ہی درست دے سکتے ہیں ۔

اسی طرح دادی ساس نہایت منفی انداز میں لڑکی کو اسکی دوست کے شہر سے گاؤں اکیلے آنے پہ ٹوکتی ہیں ، (تو حقیقت میں کیا برا کرتی ہیں؟)”میں نے سمجھا دیا تھا اسے کہ آئندہ تم سے ملنے آئے تو اپنے ساتھ باپ بھائی یا ماں اور بہنوں کو لے کر آئے، ہماری حویلی میں تن تنہا ایک لڑکی دندناتی ہوئی گھس آئے یہ ہمیں بالکل پسند نہیں ہے، میں تو حیران ہوں اس کے ماں باپ پر کہ اسے اکیلے ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیا ” انتہائی منفی تاثرات کے ساتھ یہ تمام مکالمے دہراتی اور ہیروئن کے اعصاب پر جہالت کا بم گراتی وہ اپنے اس “منفی” مکالمے کا اختتام اس جملے پہ کرتی  ہیں”   چلو اب نماز کی تیاری کرو”

بندہ پوچھے ، کہ کیا یہ ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کا حصہ نہیں کہ عورت باپ بھائی کی حفاظت میں دور دراز کا سفر طے کرے ؟ اس طرح اس کے کون سے حقوق پامال ہو رہے ہیں؟ اسکے تنگ نظری سے کیوں منسوب کیا جارہا ہے؟ یہ جواب بھی مصنف اور ہدایتکار ہی دے سکتے ہیں۔

ڈرامہ پکار کی چھ اقساط آن ائیر آ چکی ہیں اور ہر قسط میں ایک دو پنچ لائنز آپ کو آرام سے مل جائیں گی جن کے ذریعے بڑی مہارت سے اسلام کے اصول و قوانین پہ چوٹ کی گئی ہے، بلاشبہ ہمارے مصنفین اور ہدایتکار بےحد قابل اور اپنے کام میں ماہر ہیں ،خدا کرے کہ ان کی یہ صلاحیتیں معاشرے کی حقیقی خدمت میں استعمال ہو سکیں۔

12 تبصرے

  1. نئیر جی یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ قلم جن ہاتھوں میں ہے وہ اس سے صرف اور صرف دین اور اسلامی اقداروروایات کو پامال کرنے کوششوں میں لگے ہیں سمجھ میں نہیں آتا ہر منفی کردار کو اسلام سے اور ہر مثبت کردار کو لبرل ازم سے نتھی کر کے یہ لکھاری لوگ کس کی مدد کر رہے ہیں شیطان کی یا اپنے دین کی۔۔۔۔

  2. آپ کا تجزیہ بہت گہرا ہے اور میں اس بات سے متفق ہوں کہ اسلامی مذہبی احکامات کو جہالت کے فرسودہ نظام کے ساتھ خلط ملط کرنا بہت بڑی بد دیانتی ہے ۔

  3. جی آپ نے بالکل درست پوائنٹس اٹھائے ہیں۔ اگر ہمارے معاشرے میں لوگوں کو دین کی صحیح سمجھ بوجھ ہوتی تو اتنا بگاڑ پیدا نہ ہوتا۔

  4. زیادہ تر ڈرامے اس بے حسی اور لاپروائی سے لکھے جارہے ہیں کہ توبہ۔۔۔اسلام اور معاشرتی اقدار کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔۔۔عورت کی نام نہاد آزادی جو مغرب کا طرہ امتیاز ہےاسے سلو پوائزن کی طرح خواتین کے دماغوں میں انڈیلا جارہا ہے۔۔۔نہ پیمرا اور نہ کوئ عالم اس پر اعتراض کرتے ہیں۔۔۔۔اور یہ سب ایک جانے بوجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔۔۔ان آرٹسٹوں کا تو دین وایمان صرف پیسہ ہے ۔

  5. نیر کاشف آپ نے بہت متاثر انداز میں تبصرہ لکھا ہے اور آخر میں مصنف اور ہدایت کار کو جو مشورہ دیا ہے وہ تو بہت ہی شاندار ہے

  6. جزاک اللہ خیراً کثیرا
    حقیقت یہ ہے کہ چینلز کی جانب سے خاندانی نظام پر تابڑ توڑ حملے ہیں ہر دوسرے ڈرامے کی شکل میں۔۔۔

  7. درست ، اسلامی تہذیب کو نجانے کس سمت لے جایا جا رہا ہے ،اللہ میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کر دے اور ناظرین کو بھی صحیح غلط میں فرق سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔آمین

  8. Media se talluq rakhnay walay ziada tar afraad kisi soorat sudhar he nahi saktay, q k unki zindagi ki rassi tou khud he un k hathoon, me nahi hai, hmen sirf apnay ap ko he iss daldal se bachana paray gaa, or un sb ko bhi, jin se hm muhabbat krty hain, yaani hamari families Allah pak hm sb ko iss dajjali media se bachnay ki or dusrun ko bachaane ki toufeeq day Ameen

  9. Their main purpose is to defame Islaam indirectly………….. Like, Saanp bhi mar jaye, aor laathi b na tootay, inn tmam logo ne bari chaalaaki se professionally , ethics k andar rehtay huye Islam ko badnaaam krnay ki planning ki hai, ta k ye muazziz ban kr Islam ka naam dunya me badnaam krlen… Allah hmen bachae ameen

Leave a Reply to رقیہ اکبر