پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اہل مذہب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کرکے دراصل مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ’’دلیل‘‘ کے طور پر کہی جاتی ہے مگر اس بات کو دلیل کہنا دلیل کی توہین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سوشلزم، کمیونزم، سیکولر ازم، لبرل ازم، صوبائیت، لسانیت، سرمایہ داری، طبقاتی کشمکش، وڈیرہ شاہی، غربت اور امارت کی بنیاد پر سیاست ہوسکتی ہے تو مذہب کے نام پر سیاست کیوں نہیں ہوسکتی؟ اسلام کا معاملہ تو ویسے بھی یہ ہے کہ اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق ہی نہیں۔ دین دنیا میں نعرے بازی کے لیے نہیں آیا دنیا کو بدلنے کے لیے آیا ہے اور دنیا کی ایک اہم چیز سیاست بھی ہے۔ چناں چہ سیاست اگر خرابی کا شکار ہے تو دین سیاست کو بھی بدلے گا۔ چوں کہ دین سیاست کو بدلنے کا پابند ہے اس لیے مذہب کے نام پر سیاست نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ پسندیدہ یعنی ’’Recmended‘‘ ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
جلال پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
جدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبال کے ان اشعار کا مفہوم عیاں ہے۔ مسلم معاشرے میں اگر سیاست دین سے منسلک نہیں تو وہ چنگیزی کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں تک کہ مسلم معاشرے میں قوم کو حقیقی معنوں میں قوم بنانے کے لیے بھی ہم دین کے محتاج ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سیکولر اور لبرل افراد اہل مذہب پر تو الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر جب ضرورت محسوس ہوتی ہے تو سیکولر اور لبرل عناصر ان کے ترجمان اور پاسبان خود مذہب کو اپنے سیاسی و سماجی یہاں تک کہ صحافتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے سامنے آئی۔ ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے عاصمہ جہانگیر کو ’’ہیرو‘‘ بلکہ ’’Icon‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست ردِعمل ہوا۔ لوگوں نے عاصمہ جہانگیر کے سیکولر اور لبرل تشخص کو نمایاں اور ان کی اسلام بیزاری پر تبصرے کیے۔ چوں کہ ان کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ انہوں نے ایک قادیانی سے شادی کی ہوئی تھی اس لیے کہیں کہیں اس بات کا بھی ذکر ہوا۔ وہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھیں اور اسے چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرتی تھیں۔ اس لیے ان کا بھارت سے تعلق زیر بحث آیا۔ امریکا کے محکمہ خارجہ نے ان کے انتقال پر ’’افسوس‘‘ کا اظہار ضروری سمجھا۔ اس تناظر میں مغرب کے ساتھ ان کے تعلقات پر بھی خیال آرائی ہوئی۔ یہ تمام تبصرے اور تجزیے ’’آزادی اظہار‘‘ کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس لیے کہ ان تبصروں اور تجزیوں میں کوئی بات بھی ’’بے بنیاد‘‘ یا ’’خلاف واقعہ‘‘ نہیں۔ مگر روزنامہ جنگ کو تبصروں اور تجزیوں پر کافی تکلیف محسوس ہوئی اور اسے ’’اچانک‘‘ یاد آیا کہ ایک ’’چیز‘‘ اسلام بھی ہے اور عاصمہ جہانگیر کے سلسلے میں جو کچھ سوشل میڈیا پر کہا گیا وہ ’’خلاف اسلام‘‘ ہے۔ روزنامہ جنگ کی اس دہائی سے ہمیں یاد آیا کہ ابھی چند ماہ قبل جیو کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں حسن نثار اور ریٹائرڈ ائر وائس مارشل شہزاد چودھری نے پردے کا مذاق اُڑایا تھا۔ حسن نثار نے کہا کہ پردہ امہات المومنین اور عہد رسالتؐ کے لیے تھا۔ شہزاد چودھری نے مزید جرأت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ لاہور یا پنجاب کی لڑکیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ پردے کو ہرگز قبول نہ کریں گی۔ پردہ مولویوں اور ملاؤں کی ’’ایجاد‘‘ نہیں۔ پردہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے اور نص صریح سے ثابت ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ حسن نثار اور شہزاد چودھری نے اللہ اور رسولؐ کے حکم کا مذاق اُڑایا۔ جیو نے چوں کہ اس کا نوٹس لیا اور اس پر معذرت کی، اس لیے معلوم ہوا کہ میر شکیل اور جیو کی رائے بھی پردے کے بارے میں یہی ہوگی۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں خواتین ایسی ہیں جو شرعی پردہ نہیں کرتیں۔ مگر پردہ نہ کرنا ایک بات ہے اور پردے کا مذاق اڑانا اور اسے ازکار رفتہ قرار دینا دوسری بات۔ پردہ نہ کرنا کمزوری اور انحراف ہے اور پردے کا مذاق اڑانا اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہے۔ لیکن اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ادارے کو عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے یاد آیا کہ سوشل میڈیا پر ان کے انتقال کے بعد جو کچھ ہوا وہ ’’خلاف اسلام‘‘ ہے‘‘۔ ہمیں روزنامہ جنگ کی اس ’’اسلام پسندی‘‘ پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسلام جس کو جب یاد آجائے اچھا ہے۔ لیکن اس ضمن میں جنگ نے کہا کیا ہے؟ 16 جنوری 2017ء کے جنگ میں شائع ہونے والی خبر کی چند سرخیاں یہ تھیں۔
عاصمہ جہانگیر کے خلاف مہم، مسلم معاشرے میں کبھی ایسی مثال نہ رہی۔
آنحضرتؐ نے یہودی کے جنازے کا احترام کیا۔
وفات پر خوشی جیسے عمل کو قرآن و حدیث کی تائید حاصل نہیں۔
حدیث ہے مرنے والے کے بارے میں خیر کی بات کرو۔
رسول اکرمؐ اقدار کا احترام کرتے تھے۔
آپ نے دیکھا مذکورہ نکات میں ہر طرف اسلام اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ نظر آرہا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنی ہر بات اور اپنے ہر عمل کے سلسلے میں قرآن و سنت سے رجوع کرنا چاہیے۔ یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ روزنامہ جنگ نے مذکورہ تمام باتیں ’’جید علما‘‘ سے کہلوائی ہیں۔ بہترین۔ اس لیے کہ قرآن و سنت کا علم علما ہی کے پاس ہے، چناں چہ ’’جید علما‘‘ سے رجوع کرنا بھی بہترین بات ہے۔ جنگ نے جن جید علما سے رجوع کیا ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق، مفتی ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مفتی محمد زاہد، مفتی محمد نعیم، علامہ محمد امین شہیدی، مفتی عبدالرحمن، گلزار احمد نعیمی، علامہ ثاقب اکبر، مولانا قاری سید اکبر اور سمیعہ راحیل قاضی۔
ایک جانب یہ صورت حال ہے کہ روزنامہ جنگ کو سوشل میڈیا پر عاصمہ جہانگیر کی فکر و شخصیت کے تجزیے کے حوالے سے اسلام، قرآن و سنت اور ’’جید علمائے کرام‘‘ شدت سے یاد آئے۔ دوسری جانب روزنامہ جنگ اور جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز اور جیو نے عمران خان کی تیسری شادی کو ’’شرمناک اسکینڈل‘‘ کی طرح رپورٹ کیا ہے۔ اس سلسلے کی تفصیلات رونگٹے کھڑی کردینے والی ہیں۔ روزنامہ جنگ نے عاصمہ جہانگیر سے متعلق خبر 16 فروری 2018ء کو رپورٹ کی اور عمران خان کی شادی سے متعلق خبر 19 فروری 2018ء کو رپورٹ کی۔ جنگ نے عمران خان کی شادی کی پہلی خبر صفحہ اوّل پر 6 کالمی سرخی کے ساتھ رپورٹ کی، خبر کی سرخی یہ تھی۔
’’66 سالہ عمران خان نے اپنی پیرنی بشریٰ سے تیسری شادی کی تصدیق کردی‘‘۔
بلاشبہ عمران خان کی ’’تیسری شادی‘‘ کی خبر اہم تھی مگر اتنی اہم نہیں کہ اسے صفحہ اوّل پر چھ کالم کی سرخی کے ساتھ رپورٹ کیا جائے۔ روزنامہ جسارت میں یہ خبر ایک کالمی سرخی کے ساتھ صفحہ اوّل پر رپورٹ ہوئی۔ یہ خبر اپنی ’’خبریت‘‘ کے اعتبار سے بھی اتنی ہی اہم تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ خبر صفحہ اوّل پر دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوسکتی تھی۔ مگر روزنامہ جنگ نے اسے صفحہ اوّل پر چھ کالمی سرخی مہیا کرکے خبر کو ’’Scandalous‘‘ بنانے کی شعوری کوشش کی۔ پاکستان کے ہر اخبار پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے والے کو معلوم ہے کہ عمران خان کی عمر 66 سال ہے۔ چناں چہ عمران خان کی خبر میں تیسری شادی کو رپورٹ کرتے ہوئے ان کی عمر ’’بتانے‘‘ کی ضرورت نہ تھی۔ اگر عاصمہ جہانگیر کے سلسلے میں اسلام کو یاد کرنے والے روزنامہ جنگ کو عمران کی تیسری شادی کے حوالے سے بھی اسلام یاد آجاتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اسلام کسی کو بھی 66 سال کی عمر میں شادی سے نہیں روکتا۔ یعنی 66 سال کی عمر میں شادی کرنے میں مذہبی، روحانی، اخلاقی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ چناں چہ عمران کی عمر کو دھماکا خیز انداز میں پیش کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ تیسری شادی میں ’’عیاشی‘‘ کا وہ رنگ پیدا کیا جائے جو کہیں موجود ہی نہیں۔ خبر کی سرخی میں قارئین کو چیختی چنگھاڑتی سرخی کے ذریعے یہ بھی بتانا ’’ضروری‘‘ سمجھا گیا کہ عمران نے اپنی ’’پیرنی‘‘ سے شادی کی ہے۔ اسلام، اخلاق اور تہذیب کسی کو پیر، پیرنی، مرید یا مریدنی سے شریعت کے مطابق شادی کرنے سے نہیں روکتے۔ لیکن روزنامہ جنگ نے ’’پیرنی‘‘ کے لفظ کے ذریعے نکاح کے تجربے کو ’’اسکینڈل‘‘ اور ’’عیاشی کا مظہر‘‘ بنانے کی کوشش کی ہے۔ چھ کالمی خبر اور 19 جنوری کے جنگ میں موجود ایک اور خبر میں کچھ ذیلی سرخیاں بھی موجود ہیں۔ ذرا ان ’’ذیلیوں‘‘ پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔
(شادی کی) تقریب میں عمران کا کوئی فیملی ممبر شریک نہیں تھا۔
نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا۔
بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے۔ عارف نظامی
کسی کی قسمت میں وزارت عظمیٰ کی تین شیروانی اور کسی کی قسمت میں صرف شادی تھی، طلال چودھری
عمران نے بہنوں کو میسج کیا شادی کرنے جارہا ہوں، دعا کریں، مگر جواب نہیں ملا، رئیس انصاری
اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ شادی میں پورا خاندان شریک ہو۔ مگر یہ کوئی شرعی یا اخلاقی اصول نہیں، چناں چہ اگر عمران خان کی شادی میں ان کی بہنوں نے شرکت نہیں کی تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر شادی کو ’’اسکینڈل‘‘ بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے اس کا کوئی ٹھوس ثبوت کہیں موجود نہیں اور اگر بچے شادی کو قبول نہ کررہے ہوں تو یہ عمران کا مسئلہ ہے جنگ یا معاشرے کا مسئلہ نہیں۔ لیکن اس بات سے بھی شادی کو اسکینڈل بنانے میں مدد ملتی ہے۔ نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا کی ذیلی سرخی شادی کو شادی سے زیادہ ڈراما ثابت کررہی ہے اور اس سے شادی کی خبر کو اسکینڈل بنانے میں مدد مل رہی ہے۔ طلال چودھری کے یہ فرمانے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ میاں نواز شریف نے تین بار وزارت عظمیٰ کی شیروانی پہنی اور عمران کے حصے میں تین بار شادی کی شیروانی آئی۔ لیکن اس بیان کو رپورٹ کرنے سے معلوم ہوا کہ اصل مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے۔ اس لیے شادی اور نکاح کے عمل کو ’’اسکینڈل‘‘ بنایا گیا۔ ورنہ ہمیں اچھی طرح معلوم بھی ہے اور یاد بھی کہ محبت کی جو شادیاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر کرتے رہے ہیں وہ اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر کس ’’اہتمام‘‘ اور کس ’’تکریم‘‘ کے ساتھ رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔ لیکن یہ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
روزنامہ جنگ اور دی نیوز نے عمران کی شادی کی خبروں کو شہہ سرخیوں میں رپورٹ کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ان خبروں کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع کی ہے۔ اس تصویر میں جمائما اور ریحام ہی نہیں سیتا وہائٹ اور ان کی بیٹی ٹیرن کی تصویر بھی موجود ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جمائما اور ریحام خان عمران کی سابقہ بیویاں ہیں مگر سیتا وہائٹ عمران کی بیوی نہیں تھی۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ اس کی تصویر شائع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ میر شکیل الرحمن کہہ سکتے ہیں کہ سیتا وہائٹ عمران خان کی سابقہ ’’گرل فرینڈ‘‘ تھی اور ٹیرن عمران کی مبینہ بیٹی ہے لیکن عمران اپنی ’’پرانی زندگی‘‘ پر کئی بار ’’پشیمانی‘‘ کا اظہار کرچکے ہیں مگر جو جنگ عاصمہ جہانگیر کے مسلمہ ’’نظریات‘‘ اور ’’نظریاتی تعلقات‘‘ کو زیر بحث لانے پر ناراض ہے اور اسے بہت زور سے اسلام یاد آیا ہے وہ عمران کی ’’تیسری شادی‘‘ کے حوالے سے ’’سیتا وہائٹ‘‘ کا ’’گڑا مردہ‘‘ اکھاڑ کر لایا اور اسے ’’نمائش‘‘ کے لیے پیش کیا۔ حالاں کہ اسلام اس عمل کو پسند نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والا جنگ 21 فروری 2018ء کی اشاعت میں عمران خان کی تیسری شادی کے حوالے سے ایک ہولناک ترین مقام پر کھڑا نظر آیا۔ اس روز جنگ نے صفحہ اوّل پر ریحام خان کا ایک انٹرویو رپورٹ کیا۔ انٹرویو میں ریحام نے جو بات کہی اسے جنگ نے دو کالمی سرخی اور دو کالمی ذیلی سرخی میں رپورٹ کیا۔ ملاحظہ کیجیے۔
عمران نے بحیثیت شوہر مجھ سے بے وفائی کی، سہی آدمی نہیں، ریحام
بشریٰ کے ساتھ عمران کے برسوں سے ناجائز تعلقات تھے۔
بلاشبہ اس خبر میں جو کچھ کہا ہے ریحام نے کہا ہے مگر رپورٹ روزنامہ جنگ نے کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جنگ کے پاس عمران کے بشریٰ کے ساتھ ناجائز تعلقات کے ’’ناقابل تردید شواہد‘‘ ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ شواہد پیش کیے جانے چاہئیں کیوں کہ یہ اتنا بڑا الزام نہیں، اتنا بڑا ’’بہتان‘‘ ہے کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ قندیل بلوچ کی پہلی برسی کے موقع پر دی نیوز میں ایسا مضمون شائع ہوا جس میں قندیل بلوچ کی ’’جسمانی نمائش‘‘ کو قومی فریضہ قرار دیا گیا تھا۔ طارق جان نے اپنی تصنیف سیکولرزم مباحثے اور مقالمے میں 13 اگست 2010ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اس سروے کا ذکر کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قرار داد مقاصد قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر سے متصادم ہے اور ایک سروے میں 60 افراد نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سروے ملک گیر بنیاد پر نہیں صرف ’’29 افراد‘‘ کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا اور ان میں سے بھی 18 افراد یعنی 62 فی صد نے قرار داد مقاصد کی حمایت میں رائے دی تھی۔ طارق جان نے اپنی تصنیف میں صفحہ 259 پر میر شکیل الرحمن کے اخبار میں شائع ہونے والے دو اور حوالے پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک حوالہ یہ ہے۔
’’وہ سوال جو پاکستان کی نئی نسلوں کو پلٹ پلٹ کر آنے والے بھوت کی طرح پریشان کرتا ہے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ملک باقی رہے گا یا نہیں بلکہ یہ کہ اس کے وجود میں آنے کا کوئی جواز بنتا تھا؟‘‘
دوسرا حوالہ یہ ہے۔
’’ہندو مسلم لادینی یکجہتی کی بنیاد پر ایک خود مختار کشمیر وجود میں آئے‘‘۔
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جنگ کو ان امور کے بارے میں نہ اسلام یاد آتا ہے نہ رسول اکرمؐ کی احادیث اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ، نہ ’’جید علمائے کرام‘‘ اور ان کی ’آرا‘‘۔ بدقسمتی سے ’’جید علمائے کرام‘‘ کو بھی نہ ازخود کچھ ’’نظر‘‘ آتا ہے، نہ سمجھ آتا ہے۔ آپ نے دیکھا مذہب کے سیاسی استعمال پر ناراض ہونے والے خود مذہب کو کس طرح سیاسی اور صحافتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والوں کا یہ حال ہے تو خود عاصمہ جہانگیر کا کیا حال ہوگا؟۔ یہ بات تو ’’جید علمائے کرام‘‘ سے بھی پوچھی جانی چاہیے۔بدقسمتی سے ان تمام باتوں کا میاں نواز شریف سے بھی گہرا تعلق ہے۔
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...