بچوں کو جہالت کی بھینٹ نہ چڑھائیں

صبح صبح سے ایک تصویر نظر سے گزری۔بچے کی پیٹھ پر بید سے بری طرح تشدد کیا گیا اور یہ بہیمانہ تشددکسی دہشت گرد نے نہیں ایک استاد نے کیا قرآن یاد نہ ہونے پر جس کے باعث وہ بچہ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا ۔
شاید آپ کو یاد ہو کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون ٹیچر نے ایک بچے کو بری طرح مارا اور سزا کے طور پر بند کردیا اور بھول گئی اور وہ بچہ دہشت سے مر گیا۔
ظلم کا رجحان کہیں بھی ، کسی بھی جگہ ہوسکتا ہے ۔
مدرسے زیادہ بدنام ہیں اس حوالے سے کہ ڈنڈے کے بغیر حفظ نہیں ہوتا ، لیکن ہر مدرسہ اور ہر معلم ایسا نہیں ہے۔
اور اس ظلم اور ظالم فطرت کے پیچھے بھی استاد کی نفسیات اس کی فطرت کارفرما ہوتی ہے ۔ میرے بچوں نے گھر کے سامنے مسجد کے قاری صاحب سے قرآن پڑھا اور میرے ہی نہیں محلہ کے تمام بچوں نے مسجد کے امام صاحب سے تعلیم حاصل کی
امام صاحب دین ودنیا کی تعلم سے آراستہ اور بہترین انسان تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ کبھی بچوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ان کے بعد ان کے داماد پڑھانے لگے وہ سرسری سے تعلیم یافتہ اور گاؤں سے آئے تھے انھوں نے سختی کرنا چاہی مارنا چاہا، ہم نے ان کی کلاس لے لی،سمجھایا کہ تشدد سے تو بچے کبھی قرآن نہ پڑھ سکیں گے بلکہ خوف سے مسجد سے ہی بھاگنے لگیں گے،اپنے داماد کی سوچ اور مارنے کی عادت سے امام صاحب بھی پریشان تھے۔ مدرسوں میں مار تشدد کا رجحان عام ہے اور وجہ وہی علم کی کمی جہالت ہے۔ بہر حال سب ایک سے نہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ قرآن پڑھانے کے لئے جو قاری جو استاد عام طور پر آپ کو دستیاب ہیں ان کی اکثریت دین دنیا کی تعلیم سے نابلد ہے، یہ عالم نہیں ہیں۔ صرف اور صرف قاری ہیں جنھوں نے دیہاتوں سے مدرسہ سے پڑھ کر شہر میں مسجدیں سنبھال لیں حفظ کرکے اسے ذریعہ معاش بنالیا ہے۔ ان کی ذہنی تربیت نہیں ہوئی ہوتی اس لیے ہر بات ڈنڈے کے زور پر منواتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن کے معلم قاری کی باقاعدہ تربیت کی جانی چاہیے مدارس کے سسٹم کی خامیوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور اساتذہ کے لئے کچھ اصول وضوابط بنانے چاہییں تاکہ یہ اساتذہ قرآن کو ڈنڈے کے زور پر معصوم طلبہ کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں،انھیں قرآن سے محبت کرنا سکھائیں نہ کہ نفرت۔متشدد اساتذہ کے لئے سزائیں مقرر کی جائیں اور ایک ذمہ داری والدین کی بھی ہے کہ اپنے بچوں کی رپورٹ لیتے رہیں،محض قرآن کے علم حصول کے لئے اساتذہ کو ذہنی یا جسمانی تشدد یازندگی سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں ،اس حوالے سے باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ پھر کوئی معصوم بچہ کسی کی جہالت کی بھینٹ نہ چڑھ جائے
مہم کیساتھ ایک بات مد نظر رہے کہ مدرسوں کی خلاف نفرت نہ گھولیں اپنے لفظوں اپنی پوسٹوں سے کہ تمام مدرسے اور تمام اساتذہ ایک جیسے نہیں اور دشمن ہماری صفوں میں بہت ہیں۔

حصہ
mm
ڈاکٹر سیما سعید پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ مریض کے ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہاتھ ہے۔ جسمانی بیماریوں کے ساتھ قلم کے ذریعے معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں