خدارا ۔۔پاکستانی قوم  کو بھکاری نہ بنائیں ۔۔۔

صبح   7:30بجے کے قریب ایک سگنل پر رکنا ہوا   ، برابر میں بظاہر تگڑا اورصحت مند دِکھا  ئی  دینے والے گداگر نے پاس کھڑی کار کی کھڑکی  کے قریب جا کر صدا لگائی  اور کچھ ہی لمحے بعد شیشے کے پیچھے سے ایک صاحب نمو دار ہوئے اور ایک لال نوٹ   تھما دیا ،  بھکاری عجلت میں نامکمل سی دُعا  دیتاہوادیگر گاڑیو ں کی طرف بڑھ گیاکہ  جیسے  کوئی بھکاری نہ ہوکوئی ٹول ٹیکس ایجنٹ ہو ۔

ایسے پیشہ ور گداگروں  کو  پیسے دیکرہم  اُن  کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں  بلکہ حقدار کا حق ، ناحق  کسی اور کو دے دیتے ہیں  ۔ ایسے پیشہ ور گدار گاؤں دیہات سے منتقل ہوکر  شہروں کی کچی آبادی میں جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں اور صبح سویرے ہی  ٹولوں کی صورت میں جن میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل ہوتے ہیں، شہر بھر میں پھیل جاتے ہیں ۔ خواتین اور بچے ان کا ایسا ہتھیار ہیں جن کے ذریعے وہ اچھی خاصی ”بھیک“ جمع کر لیتے ہیں۔ اور شام کو اپنے جھونپڑوں میں پہنچ کر ”بھیک“ کو انجوائے کرتے ہیں ۔

ایسے  بھکاریوں کو بھکاری بنانے میں 100فیصد ہمارا کردار ہوتا ہے ۔ بغیر سوچے سمجھے ایسے پیشہ ور  بھکاریوں  کی ماداد کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہئےاور کسی وقت  پر سمجھا نے کاموقع ملے تو ضرور سمجھانا چاہیے   ۔  اگر آپ صدقہ خیرات یا انسانی  ہمدردی  کے ناتے بھی امداد کرتے تو ہیں ایسے سفید پوش افرد کی مدد کیجئے جو ہاتھ پھیلانے سے قاصر ہوں ۔ اپنے ہی اردگردکسی بیواہ کو دیجئے جس کو اپنے بچوں کے اخراجات  کے لئے محنت مزدوری کے بدلے ناکافی اُجرت دی جاتی  ہو، ایسے یتیم  بچے کو دیجئے جو   تعلیم چھوڑ کر کسی ہوٹل پر باہر والی کر نے پر مجبور ہو ، ایسے  مریض کو دیجئے جو صرف پیسے کی وجہ سے علاج  و معالجے سے محروم ہو ، ایسے مقروض کو دیجئے جو کو انتہائی مجبوری میں لئے گئے قرض کے بدلے میں سود ادا کررہا ہو ۔ مجھے یقین ہے تھوڑی سی  چھان بین کے بعد  ایسے افراد ضرور مل جائیں گے   اور جب آپ ایسے لوگوں کی مدد کریں تو یقین جانئے کہ  بے پناہ سکون و ذہنی استراحت  محسوس ہوگی ۔

 پاکستان میں گداری   کی لعنت دن بدن بڑھتی جارہی ہے  جس کی بنیادی وجہ  کوئی اور نہیں بلکہ ہم خُد ہیں  جوکہ پیسے دیکر ان کی صوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ بغیر محنت کے ایک دن میں ہزاروں کما لینے کا نشہ چڑھنا تو آسانی سے نہیں اُترتا ۔ معروف لکھاری  ریاض بٹالوی  صاحب نے  اپنے فیچر میں ایسے ہی کسی پیشہ ور  گداگر کے  بارے میں تحریر کیا   اِس نے بھیک کے پیسوں سے تین پیلی ٹیکسیاں خریدیں جو رینٹ پر شہر میں چلتی تھیں۔ تین عدد خوبصورت بنگلے اُس کے نام پر تھے اور کرایہ پر چڑھے ہوئے تھے، جبکہ بینک اکاﺅنٹ میں لاکھوں روپے جمع تھے۔ ایک بار خیال آیا کہ کیوں نہ وہ گداگری چھوڑ کر باعزت زندگی بسر کرے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد اُس کی بے چینی میں اضافہ ہوا۔ وہ تمام مالی وسائل رکھنے کے باوجود دوبارہ گداگری کے پیشے سے منسلک ہو گیا۔ اُس کا کہنا تھا ”جو مزہ گداگری میں ہے وہ کسی اور کام میں نہیں۔“ اس سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ گداگری پیشہ ہی نہیں، گداگروں کے لئے مزے کی چیز بھی ہے۔ جس میں کچھ ہاتھ پاﺅں ہلائے بغیر رات تک اچھی خاصی رقم جمع ہو جاتی ہے ۔

بحیثیت  باشعور قوم ہمارا ہر  عمل فطرت کے بنائے ہوئے اُصولوں کے مطابق ہونا چاہئے  ، ہمارے ہر کام کے پسِ منظر میں اچھائی کا عنصر غالب رہنا چاہئے کیونکہ اِ سی میں ہماری عافیت و بقا ہے ۔

حصہ
mm
سلمان علی صحافت کے طالب علم ہیں، بچپن سے ہی پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے ۔ کافی عرصہ ریڈیو سے وابستہ رہنے کے بعد کچھ عرصہ ایک اخبار سے وابستہ رہے ، فی الوقت ایک رفاعی ادارے کے شعبے میڈیا اینڈ مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں ۔معاشرتی مسائل، اور سیر و سیاحت کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں