بِٹ کوائن۔۔۔۔ پرانا شکاری لایا ایک نیا جال

بچپن میں، ناشتہ کے وقت جب ہم سب بہن بھائی ایک جگہ بیٹھ کر چائے پراٹھا کھا رہے ہوتے اور کسی ایک بچے نے بھی کہا کہ ’’امّی! چائے پھیکی ہے‘‘، تو پھر سب، چولھے کے پاس بیٹھی امی کے پاس پنہچ جاتے تاکہ چائے کی پیالی میں مزید چینی ڈلوائیں۔ امّی بھی سیانی تھیں۔ بچوں کی نفسیات کو جانتی تھیں۔ لہٰذا وہ چینی والی ڈبی اٹھاتیں، اس میں سے جھوٹ موٹ کی چینی اپنی چٹکی میں لیتیں اور باری باری سب بچوں کی چائے کی پیالیوں میں ڈالتی جاتیں۔ سب بچے مطمئن ہو جاتے اور اپنا ناشتہ مکمل کرتے۔
ایک اور مثال۔ چھوٹے بچے جب کھیل کھیلتے ہیں تو بہت سی چیزیں یوں ہی فرضی طور پر بجا لاتے ہیں۔ مثلاََ: اگر بچوں نے جھوٹ موٹ میں پارٹی پارٹی کھیلنی ہے تو کوئی میزبان بن جاتا ہے تو کوئی مہمان۔ گھر کے برتن سامنے رکھ کر پلیٹوں میں جھوٹ موٹ کا سالن چمچوں سے انڈیلا جاتا ہے اور مہمان بھی جھوٹ موٹ میں اٹھا اٹھا کر کھا رہے ہوتے ہیں اور کھانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے، منہ چلا رہے ہوتے ہیں۔
تمہید کے بعد اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ ہم اس وقت جو پیپر کرنسی استعمال کر رہے ہیں اس سے قبل لوگوں کے پاس سونا چاندی ہوتے تھے جن سے وہ اشیاء خریدتے تھے یا پھر جنس کے بدلے جنس کا لین دین ہوا کرتا تھا۔ جنس کے بدلے جنس کا چلن تو ہم نے اپنے بچپن میں بہت دیکھا تھا کہ لوگ گندم کے دانے بیچ کر سودا سلف خریدتے تھے یا گاؤں کے نائی کو روپیہ رقم دینے کے بجائے، فصل اترنے پر کچھ دانے دے دیے جاتے تھے۔ دیہی علاقوں میں تو شاید اب بھی یہ دستور رواں دواں ہو۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ حکومتوں نے کرنسی نوٹ چھاپنا شروع کیے۔ (اختصار کے پیش نظر میں درمیان سے وہ حصہ چھوڑ رہا ہوں جو’’ کرنسی نوٹوں کی ابتداء کیسے ہوئی‘‘ سے متعلق ہے۔ یہ آپ گوگل سے بآسانی جان سکتے ہیں)۔ اصول یہ طے پایا تھا کہ جس ملک کے پاس سونے کے جتنے ذخائر ہوں گے، وہ زیادہ سے زیادہ اتنے ہی کرنسی نوٹ چھاپ سکتی ہے۔ ایک عرصہ تک اس پر عمل ہوتا رہا۔ مگر اس کے بعد خود حکومتوں نے عوام کو دھوکہ دینا شروع کردیا۔ وہ یہ کہ گولڈ ’رزورز‘ سے بڑھ کر کرنسی نوٹ چھاپنے شروع کردیے۔ اس حرکت کی وجہ سے دنیا بھر میں معاشی بدنظمی، اتھل پتھل اور اضمحلال پیدا ہونا شروع ہوئے۔
اب آپ دیکھیں نا کہ لوگوں کو جب آسانی سے پیسہ اور آسائشیں ملنا شروع ہوں گی، جن کے کہ وہ حقدار نہیں تھے اور جنہیں وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کبھی حاصل نہیں کر سکتے تھے، تو معاشروں میں اضطراب پیدا نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟۔ میں اپنی کمائی سے کبھی زیرو میٹر گاڑی نہ خرید سکوں گا مگر بینک مجھے ایک دن کے اندر زیرو میٹر گاڑی دے دے اور بینک کا بھی اپنا پیسہ نہیں بلکہ لوگوں کی رقوم ہیں، تو کیا معاشی اضطراب پیدا نہ ہوگا؟
پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ آن لائن ٹرانزیکشز، کریڈٹ و ڈیبٹ کارڈز وغیرہ کے ذریعہ جو ادائیگیاں کی جاتی ہیں ان میں اصل دولت اپنی جگہ سے نہیں ہلتی، وہیں پڑی رہتی ہے صرف ریکارڈ میں یہ آجاتا ہے کہ اتنی رقم فلاں سے فلاں کے کھاتے میں چلی گئی۔ کہتے ہیں اس وقت دنیا میں اصل رقم کا صرف دس گیارہ فیصد ہی حقیقی معنوں میں ٹرانسفر ہوتا ہے، باقی سب نوے فیصد دولت ویسی کی ویسی بینکوں میں پڑی رہتی ہے۔
پلاسٹک کے رنگ برنگے کریڈٹ و ڈیبٹ کارڈز نے تو اس کھیل کو مزید تیز تر کردیا۔ اب آپ کی جیب خالی ہے مگر آپ قیمتی سے قیمتی چیز خرید رہے ہیں۔ ایک عرصہ تک جب لوگوں نے دیکھا کہ دنیا کا سارا کاروبارمحض مفروضوں پر چل رہا ہے تو پھر اس کاغذ کی کرنسی کی بھی آخر کیا ضرورت ہے۔ کیوں نہ کوئی ایسی کرنسی ہو جو اس پیپر کرنسی کی ضرورت کو بھی ختم کردے۔ لہٰذا، اب ایک نئی چیز مارکیٹ میں لائی گئی ہے جس کو ’’کریپٹو کرنسی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جو صرف موبائل فون اور کمپیوٹرز کے ذریعہ آن لائن ہی بغیر کسی چارجز اور مشکل کے ایک دوسرے کو منتقل ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ اس کی مارکیٹنگ ہو رہی ہے۔ معروف اور بڑے ادارے اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ یو اے ای میں سنا ہے کہ ایک گاڑیوں کی کمپنی نے اپنی کار ’’بٹ کوائن‘‘ کے بدلے بیچی ہے۔ کچھ ریئل اسٹیٹس اس کرنسی پر پراپرٹی کی خرید و فروخت کر رہی ہیں۔ ’’بٹ کوائن‘‘ اس وقت کریپٹو کرنسی میں سب سے اول نمبر پر ہے۔آج کی تاریخ میں ایک بٹ کوائن کی قیمت تقریباََ 15,600 امریکی ڈالر ہے۔ سنا ہے کہ چند ہی ماہ میں یہ پچیس ہزار امریکی ڈالر تک پنہچ جائے گی۔ لہٰذا جن کوگوں کے پاس دولت کہیں ادھر ادھر پڑی ہوئی تھی، وہ دھڑا دھڑا ’’بٹ کوائن‘‘ خرید رہے ہیں۔
یہ وہ کرنسی ہے جس پر دنیا کی کسی گورنمنٹ یا سینٹرل بینک کا کوئی کنٹرول نہیں۔ اس کی ٹرانزیکشنز اتنی خفیہ ہوتی ہیں کہ صرف لینے اور دینے والوں کو ہی اس کا پتہ ہوتا ہے۔ نہ اس کو ایک دوسرے کو بھیجنے پر کوئی چارجز لگتے ہیں اور نہ وقت۔ دنیا بھر میں ڈرگ اسمگلرز، اغوا برائے تاوان کے گینگز اور دیگر دہشتگرد گروہ اس کے ذریعہ اپنا کام کر رہے ہیں۔
اس کرنسی کا استعمال، لوگوں کے آپس کے باہمی اعتماد اور انڈراسٹینڈنگ کے عیوض ممکن ہوا ہے بالکل اس طرح جس طرح کچھ جواری کہیں بیٹھ جائیں اور ’’کروڑ پتی‘‘ گیم کی بساط بچھا کر، اس کے تاش جیسے پتوں پر اصل ٹرانزیکشنز کرنا شروع کردیں۔ انہی تاش کے پتوں سے وہ کراچی کی بولٹن مارکیٹ بھی خرید رہے ہوں، بنس روڈ بھی اور دنیا بھر کی قیمتی اشیاء بھی۔ پھر، کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے اگر وہ ایفل ٹاور یا دبئی کی بڑی اور اونچی عمارتیں بھی انہی پتوں سے خریدنے پر متفق ہو جائیں جب کہ بیچنے والے بھی راضی ہوں۔
ہماری قوم تو ویسے بھی بھیڑ چال کو پسند کرتی ہے۔ سوشل میڈیا میں اس کرنسی پر بات چیت شروع ہو چکی ہے۔ لوگ اس میں دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔ کیا برا ہے اگر کوئی ایک بٹ کوائن خرید لے اور صبح کو جب اٹھے تو اس کے اکاؤنٹ میں وہ رقم دگنی ہو چکی ہو۔
لوگ اب اپنی رقوم اور ڈالز بیچ کر بٹ کوائن خرید رہے ہیں۔ یعنی ہاتھوں میں محسوس ہونے اورآنکھوں سے دیکھی جانے والی کرنسی کو بیچ کر ایسی چیز خرید رہے ہیں جس کو نہ ہاتھ چھو سکتے ہیں، نہ آنکھیں دیکھ سکتی ہیں، جس کا نہ آغاز معلوم ہے نا انجام۔ اس کھیل کے پیچھے کون ہے، کیوں اس کو اتنی تیزی سے مقبول بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، یہ تو وہی جانے جو تمام کائنات کا رب ہے اور جو ہر چیز کا کامل علم رکھتا ہے۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں، کہ سیانا کوّا پھنستا ہے تو دونوں پاؤں سے پھنستا ہے۔ کیا معلوم کہ ایک صبح جب کوئی اٹھے تو معلوم ہو کہ ’’بٹ کوائن‘‘ یا کریپٹو کرنسی نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود نہیں۔ پھرآپ کس کو پکڑیں گے۔ نہ کوئی حکومت اس کو اون کرتی تھی اور نہ کوئی بینک اس کی گارنٹی دیتا تھا جیسا کہ ہمارے ہر کرنسی نوٹ پر لکھا ہوتا ہے’’حاملِ ہٰذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا‘‘۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں