والدین کا دل جیتنے والے دس کام

جن کے والدین زندہ ہیں وہ دنیا کے خوش نصیب ترین انسان ہیں۔ ماں اور باپ کے رشتے ایسے ہیں کہ جن کا دنیا میں کوئی بدل نہیں۔ یہ رشتے بس ایک ہی بار ملتے ہیں اور پھر ریت پہ کھینچی لکیروں کی طرح تیز ہواؤں کی نظر ہوجاتے ہیں۔ وقت بہت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے۔ یہ کل ہی کی تو بات ہے کہ ہم چھوٹے بچے تھے، ہمارے والدین ہماری کل کائنات تھے۔ ہم ان کے ساتھ گپ شپ کیا کرتے تھے، گھومنے پھرنے جایا کرتے تھے ان سے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور مطالبے منوایا کرتے تھے۔ آہ! اب وہ ہم میں نہیں رہے۔ وہ باپ جو میری ذرا سی تکلیف پر بے چین ہو جایا کرتا تھا، دوڑا دوڑا ڈاکٹر کے پاس جاتا تھا، اب کہیں دور چلا گیا ہے۔ وہ ماں جو مجھے مٹی میں کھیلنے سے منع کرتی تھی، آج خود مٹی کی چادر تانے سو رہی ہے۔ اب بس ان کی یادیں ہیں، ایک دھندھلی سی تصویر ہے۔
جن کے والدین حیات ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے ماں باپ کی خوب خدمت کریں، ان کے دل جیتنے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ ماں باپ کی ایک دعا ہی انسان کی دنیا و آخرت سنوارنے کے لیے کافی ہے۔ اب ذیل میں وہ دس باتیں بتائی جا رہی ہیں جن سے کوئی انسان اپنے ماں باپ کا دل جیت سکتا ہے۔
۱۔والدین کو وقت دیں۔ آج کے دور میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی دلچسپی کے لیے بہت سی چیزیں ایجاد ہو گئی ہیں۔ ویڈیو گیمز، کمپیوٹر، ٹی وی، سوشل میڈیا اور دوستوں کا ایک وسیع حلقہ انہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ اپنے والدین کے پاس چند ساعتیں گزار سکیں۔ مگر یاد رکھیں کہ آپ چاہے کتنے ہی بڑے ہوجائیں، اپنے والدین کی نظر میں وہی دو تین سالہ بچے کی مانند ہیں۔ جو اپنے جگر گوشے کو ہر دم اپنے قریب دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی باقی تمام خدمات سے بڑھ کر جو چیز آپ کے والدین کے لیے نہایت قیمتی ہے وہ آپ کا ان کے پاس بیٹھنا ہے۔ کوشش کریں کہ یہ بیٹھنا خانہ پوری اور جبر والا نہ ہو بلکہ ایسا ہو جیسے دو انتہائی محبت کرنے والے دوست آپس میں بیٹھ کر گپ شپ کیا کرتے ہیں، ایک دوسرے کا حالِ دل سنا کرتے ہیں، ایک دوسرے کی گفتگو سے لطف اندوز ہوا کرتے ہیں۔ جو ایک دوسرے کی صحبت سے اتنے لطف اندوز ہوتے ہوں کہ ایک دوسرے سے جدا ہونے کو دل ہی نہ کرتا ہو۔ پھر وہ خوشخبری تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ والدین کے چہروں پر پڑنے والی آپ کی محبت بھری نگاہ، ایک مقبول حج اور عمرے کے ثواب کے برابر ہے۔ کیا یہ سودا برا ہے؟
۲۔ ان کو مرکزی حیثیت دیں۔ جب والدین بوڑھے ہو جائیں تو انہیں کسی کونے میں چارپائی پر ڈال کر عضوئے معطل بنا کر نہ رکھ دیں بلکہ ان کو ہر معاملہ میں مرکزی حیثیت دیں۔ ٹھیک ہے آپ جوان ہو گئے ہیں، تمام ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔ آپ کی شادی بھی ہو گئی ہے۔ مگر اس کے باوجود ہر ہر معاملہ میں والدین کو محسوس کروائیں کہ آپ ان کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ کام آپ نے ہی کرنا ہے اور اسی طرح کرنا ہے جس طرح آپ چاہتے ہیں مگر جب والدین سے پہلے مشورہ کر لیں گے تو وہ بہت خوشی محسوس کریں گے اور انہیں احساس ہوگا کہ وہ اب بھی ریٹائرڈ نہیں ہوئے بلکہ انہی کے مشوروں اور تعاون سے گھر کا کاروبار چل رہا ہے۔ آپ کو کچھ یاد ہے کہ جب آپ چھوٹے تھے، اتنے چھوٹے کہ دو کلو وزن بھی نہ اٹھا سکتے تھے اور اپنے والدین کی کوئی بھاری چیز اٹھانے میں مدد کرتے تھے تو وہ آپ کا دل رکھنے کی خاطر آپ کو یہی احساس دلاتے تھے کہ وزن تو دراصل آپ ہی نے اٹھایا ہوا ہے۔ بس یہی قرضہ اب واپس لوٹانے کا وقت ہے۔
۳۔اکتاہٹ اور بیزاری کے اظہار سے پرہیز۔ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی یاداشت بھی کمزور ہو جاتی ہے اس لیے جب آپ کے والد یا والدہ آپ کو کوئی ایسا واقعہ سنائیں جو کہ آپ ان کی زبانی کئی بار سن چکے ہوں تو بیزاری کے اظہار کے بجائے ایسی دلچسپی اور غور سے سنیں جیسے وہ واقعہ آپ پہلی بار سن رہے ہیں۔ یہ کبھی نہ بولیں کہ آپ بار بار ایک ہی واقعہ کیوں بیان کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ان کا دل ٹوٹ جائے گا اور وہ دل میں شرمندہ ہو جائیں گے۔ جب وہ بات کریں تو ان کی بات درمیان میں نہ کاٹیں، یہ ادب کے بھی خلاف ہے اور یہ چیز ان کے اندر احساس کمتری پیدا کردے گی۔
۴۔ان کے سامنے وہ چیزیں نہ کھائیں جن سے ڈاکٹر نے انہیں پرہیز کرنے کا کہا ہے۔ بڑی عمر میں اکثر افراد کو شوگر ہو جاتی ہے۔ اگر خداناخواستہ آپ کے والدین میں سے کسی کے ساتھ یہ مسئلہ ہے تو کوشش کریں کہ ان کے سامنے میٹھی چیزیں نہ کھائیں۔ آم کے دنوں میں ان کا دل بھی آم کھانے کو ایسا ہی کرتا ہے جیسا کہ آپ کا، اس لیے کوشش کریں کہ اس طرح کی چیزیں ان سے الگ ہٹ کر کھائیں۔ اسی طرح مٹھائی وغیرہ کا معاملہ ہے۔
۵۔ جب گھر میں کوئی چیز، جیسے پھل فروٹ وغیرہ لائیں تو امی کو دیں کہ لیجیے امی جان آپ ہی تقسیم کیجیے، اس سے ان کو بہت خوشی ہوگی، اسی طرح اگر قربانی کی گئی ہے تو والد کو کہیے کہ ابو جان آپ بتائیے کس طرح حصے نکالنے ہیں اور کس کس کو دینے ہیں۔ مقصد وہی کہ ان کو اہمیت دی جائے۔ گھر کی روزانہ کی سبزی یا سالن لاتے وقت والدین سے معلوم کریں کہ ’’آج کیا پکایا جائے‘‘۔ یہ چیز ان کو بہت زیادہ خوش کر دے گی۔ بازار جاتے وقت ان سے معلوم کر لیں کہ انہیں کوئی چیز چاہیے تو نہیں۔ اگر نہیں بھی چاہیے تو کم از کم گھر سے نکلنے پر وہ آپ کے لیے دعا تو کر ہی دیں گے۔
۶۔اگر آپ بیرون ملک یا کسی دوسرے شہر میں رہتے ہوں تو جب گھر پر فون کریں تو پہلے والدین سے بات کریں اس کے بعد اپنے بیوی بچوں سے۔ اسی طرح جب آپ سامان کا بیگ بیرون ملک سے لائیں تو والدین کے سامنے کھولیں، کہ تجسس تو ان کے اندر بھی بچوں والا ہی ہوتا ہے، بس بیچارے اظہار نہیں کرتے۔ والدین کا کوئی ذریعہ آمدن نہ ہو تو اپنی گنجائش کے مطابق جتنا آسانی سے ہو سکے ان کا جیب خرچ مقرر کردیں۔ بالکل اس طرح جیسے بچپن میں وہ آپ کو جیب خرچ دیا کرتے تھے۔ ان کا صرف کھانا پینا ہی اپنے ذمہ لے لینا کافی نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کبھی ان کا دل کوئی چیز خریدنے کو کر رہا ہو مگر جیب میں سو روپے بھی نہ ہوں اور وہ آپ سے مانگنے کی ہمت بھی نہ کریں۔ یوں ان کی معصوم سی خواہشات دل ہی میں گھٹ کر دم توڑ جاتی ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ نے آپ کو جتنی توفیق دی ہے اتنا جیب خرچ ماہانہ ان کو دے دیا کریں تاکہ وہ اپنی مرضی سے جس طرح چاہیں خرچ کریں۔
۷۔ جب اپنی فیملی کو گھمانے پھرانے کے لیے کسی مقام پر لے جائیں تو والدین کو بھی لے کر جائیں، ان کو گھر پر چوکیداری یا بے بی سٹر کے طور پر چھوڑ کر جانا انتہائی برا عمل ہے۔ ہاں اگر خود ہی نہ جانا چاہیں تو پھر مضائقہ نہیں۔ ان کے سامنے ہمیشہ امید کی باتیں کریں، مایوسی والی باتیں، بری خبریں اور واقعات، جن کا ان سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، ذکر کرنا ان کی صحت پر برے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
۸۔ اولاد میں تفرقہ والی باتوں سے اجتناب۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے سامنے اپنے سگے بھائی یا بہن کی برائی کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ والدین ان کا دل رکھنے کی خاطر ہاں میں ہاں ملائیں مگر یہ چیز ان کو بہت تکلیف دیتی ہے اور انہیں رنجیدہ کر دیتی ہے۔ میرا ایک بھائی شارجہ میں رہتا ہے۔ میں جب بھی اس سے ملنے کے لیے جاتا تھا تو وہیں سے والدہ مرحومہ کو فون کرکے بتاتا تھا کہ آج میں بھائی کے ہاں آیا ہوا ہوں تو وہ بہت خوش ہوتی تھیں۔ یہ یاد رکھیں کہ دنیا کے باقی رشتے مطلبی ہوسکتے ہیں مگر والدین کا رشتہ اپنی اولاد کے لیے بے لوث ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ہمیشہ آپس میں شیر و شکر رہے۔ دنیا کا کوئی باپ یا ماں یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی اولاد آپس میں لڑے یا تفرقہ کی شکار ہوجائے۔
۹۔گھر میں کسی تنازع کی صورت میں آپ فریق نہ بنیں۔ تنازع آپ کے والدین کا آپس میں بھی ہو سکتا ہے اور آپ کے والدین اور آپ کی بیوی یا شوہر کے درمیان بھی۔ ایسی صورت میں آپ نے جج بن کر فیصلہ نہیں کرنا بلکہ حکمت کے ساتھ معاملہ کو ٹھنڈا کرنا ہے۔ والدین کو، باوجود اس کے کہ انہی کی غلطی ہو، ٹوکنا یا شرمندہ کرنا درست عمل نہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ آپس میں کسی وقت تیکھے میٹھے ہو جاتے ہیں تو اولاد ان میں سے کسی ایک کا ساتھ دیتی ہے جو کہ غلط ہے۔ اسی طرح آپ کی بیوی اور آپ کی والدہ کا بھی آپس میں جھکڑا ہو سکتا ہے، ایسی صورت میں بھی جج بن کر ماں باپ کو غلط قرار دینے کے بجائے انکساری اور تواضع کا رویہ اختیار کرنا بہتر ہے۔
۱۰۔ ادب و احترام۔ ان کے سامنے اپنی آواز پست رکھیں اور گفتگو میں ایسے القاب یا الفاظ استعمال نہ کریں جن سے ان کی سبکی ہوتی ہو۔ ان کی طرف پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھیں اور نہ چلتے ہوئے اس طرح کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلیں کہ جیسے کسی کو محسوس ہو کہ دو دوست آ رہے ہیں۔ آگے آگے چلنے کے بجائے یا تو پیچھے چلیں یا ساتھ ساتھ۔ اگر والد یا والدہ بازار سے سامان لے کر پیدل آ رہے ہوں تو آگے بڑھ کر خود لے لیں اور گھر تک چھوڑ کر آئیں۔ کبھی انہیں یوں نہ بولیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا بلکہ ہمیشہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے سامنے ان کی محنتوں اور قربانیوں کا تذکرہ کریں۔
جن کے والدین وفات پا چکے ہوں وہ ان کے لیے ہر وقت دعا کرتے رہیں اور ان کی دی گئی اچھی تربیت پر عمل کرتے رہیں تاکہ ان کو اس کا اجر ملتا رہے۔ یاد رکھیں اللہ نے قرآن پاک میں نیک والدین اور ان کے نیک بچوں کو جنت میں اکھٹا کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ لہٰذا اللہ سے ہر نماز میں دعا کریں کہ وہ آپ کے والدین کو بخش فرمائے اور ان پر اس طرح رحم فرمائے جس طرح انہوں نے آپ پر بچپن کی بے بس زندگی کے دوران رحم کیا تھا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں