قرۃ العین حیدر نے پاکستان کیوں چھوڑا تھا؟

یہ سوال پریس کلب کے ایک گوشے میں بیٹھے ، سابق ترقی پسند، اور حال کے لبرل این جی او رسیدہ سے پوچھا (جنہیں آپ مرزا صاحب سمجھ لیں) تو انہوں نے قیمتی سگریٹ کا دھواں ناک اور منہ سے بیک وقت نکالا ، ماتھے پر شکن ڈالی، پھر ساٹھ کے عشرے میں چلے گئے اور وہیں سے ایسی گونجیلی آواز میں بولے جو کنویں میں منہ ڈال کر بولنے سے آتی ہے ’’یہ انیس سو پچاس کے عشرے کے آخری سال تھے جب قرۃ العین پاکستان آئیں لیکن انہیں وہ پاکستان نہیں ملا جس کی آس میں وہ بھارت سے آئی تھیں۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور فوجی آمریت دونوں اُن کے مزاج کے خلاف تھی۔ دراصل انگریز کے جاتے ہی امریکی سامراج نے پاکستان کو اپنی کالونی کے لیے چن لیا تھا۔ سوویت یونین سے مقابلہ کرنے کے لیے ٹھکانے کی تلاش میں امریکی سامراج یہاں قدم جمانے لگا۔ اُدھر مذہبی طبقے طاقتور ہونے لگے تھے، مذہبی شدت پسندی سر اٹھانے لگی تھی، قرۃ العین حیدر گھٹن زدہ ماحول سے گھبرا گئیں ، انہوں نے بہت پہلے دیکھ لیا تھا کہ پاکستان کیا بننے والا ہے، وہ یہاں رک ہی نہیں سکتی تھیں۔ مجھے تھوڑا تھوڑا یاد ہے، جب ادیبوں نے بھی ان کے خلاف سازشیں……..‘‘

’’سازش ‘‘ کا لفظ سنتے ہی، پاس سے گزرنے والے دو ساتھی آکر ہماری میز پر بیٹھ گئے اور انہماک سے سننے لگے۔

مرزا صاحب تیسری سگریٹ کے کش لیتے ہوئے بول رہے تھے: ’’…..پاکستانی ادیبوں نے جان لیا تھا کہ عینی کے سامنے اُن کا چراغ نہیں جلے گا۔ اُدھر تمام انسانوں کو برابر  حیثیت دینے کی حامی بائیں بازو کی قوتوں پر آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، مقدمات، جیلیں، تشدد عام ہوتا گیا۔ جمہوری قوتوں نے امریکی چالوں میں …..‘‘۔ میں موقع ملتے ہی وہاں سے کھسک لیا۔

مرزا صاحب  نووارد ساتھیوں کو بتاتے رہے، بے چارے سر ہلا ہلا کر اُن سے اتفاق کرتے ہوئے پائے گئے۔ کافی دیر بعد میں وہاں سے جان بوجھ کر گزرا کہ سنوں، اب کون سا موضوع چل رہا ہے؟

مرزا صاحب کہہ رہے تھے: ’’….. انسان ہمیشہ طبقوں میں بٹا رہا، یہ تقسیم بھی انسان کی پیدا کردہ ہے، لیکن شاطر انسان اس تقسیم کو قسمت کا نام دے کر دنیا کے 90 فیصد سے زیادہ غریب اور نادار طبقے کو استحصالی طبقات کے خلاف جنگ کرنے سے روکتا رہا۔ قرۃ العین حیدر بھی استحصالی طبقات کے خلاف تھیں، وہ پاکستان میں ان طبقات کا مقابلہ کرنے کے لیے کھل کر سرگرم ہوگئیں، حالانکہ مارکس اور اینجلز دو ایسے مفکر تھے جنہوں نے طبقاتی سماج کے خاتمے کے لیے ایک بہترین متبادل پیش کیا جس کا نام انہوں نے سوشلزم رکھا۔ عینی آپا سوشلزم کی زبردست حامی تھیں، انہوں نے اپنے ایک ناول میں …….‘‘۔

اُن دونوں ساتھیوں کی حالت قابلِ رحم تھی لیکن وہ کیا کرتے، پاس سے کوئی گزر ہی نہیں رہا تھا۔

****

 

 

حصہ
تحریر و تصنیف کے شعبے میں اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عامل صحافی تھے، فی الحال مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ایم اے ابلاغ عامہ اردو کالج کراچی سے ۱۹۹۸ء میں کرنے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی، جس کا تعلیم پر کوئی برا اثر نہیں پڑا، البتہ نئی نسلوں کو عبرت ملی کہ تعلیم چھوڑ دینے کا کیا نقصان ہوا کرتا ہے۔ اردو اور انگریزی فکشن سے دلچسپی ہے، اردو میں طنز و مزاح سے۔

جواب چھوڑ دیں