شرافت کے مارے ۔۔افسانہ

وہ مینار والی مسجد کے سب سے اونچے مینار پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہاں سے اُسے دور دور تک سارا منظر صاف نظر آتا تھا۔ گاؤں کے کچے پکے مکانات مشرقی سمت میں شہر سے آنے والی پختہ سڑک جو اس گاؤں سے ہوتی ہوئی دوسرے شہر تک چلی جاتی تھی۔ مغربی سمت میں گندے پانی کا چھپڑ ‘ گاؤں کے اطراف میں ہی دور تک پھیلا ہوا زرعی زمین کا رقبہ جس میں باغات بھی موجود تھے اور گاؤں کے ساتھ ہی قبرستان۔۔۔ زندہ لوگوں کے ساتھ مرنے والوں کی بستی۔۔۔ قبرستان دیکھ کر اکثر وہ مسکرانے لگتا تھا۔ اُسے یاد آجاتا تھا۔ جب حضرت انسان دنیا پر آباد ہوا تھا اور جب دنیا کے پہلے انسان نے موت کی لذت کو چکھا تھا اور جب دنیا کے پہلے انسان کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس مرنے والے کو چھپائے کیسے۔۔۔ تب اس کے بزرگوں میں سے کسی ایک نے اسے قبر کھودنے کا طریقہ سکھا تھا۔ قبرستان کی یہ صورت اس کے بزرگوں کی ایجاد کی یادگار تھی۔ جب وہ اداس ہوتا تھا تو اس مینار پر آبیٹھتا تھا۔۔۔ مگر آج تو وہ رزق کی تلاش میں یہاں آکر بیٹھا تھا۔ اس کی نظر بہت تیز تھی۔ اب وہ گاؤں میں جھانک رہا تھا۔ اس کے مقدر کا رزق کہاں پر موجود ہے۔ کسی بچے کے ہاتھ میں یا پھر نلکے کے پاس تھڑے پر بیٹھی اس عورت کے پاس جو پانی کی مدد سے گوشت صاف کررہی تھی۔ پھر اچانک وہ چونک پڑا۔ اسے کھانے کے لیے تو کچھ نظر نہیں آیا تھا مگر اس نے کچھ اور دیکھ لیا تھا۔ کچھ ایسا جسے نظر انداز کرنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ اب وہ اچھل پڑا اور اس نے فضامیں چھلانگ لگا دی تھی۔ اب وہ اپنے پر سکوڑے ہوا کے دوش پر تیر جیسی تیز رفتاری کے ساتھ شرافت علی کے گھر کی طرف آرہا تھا۔ پھر وہ گھر کی منڈیر پر آبیٹھا۔
’’کائیں۔۔۔ کائیں۔۔۔کائیں۔۔۔‘‘ وہ حلق پھاڑ کر چیخنے لگا تھا۔ زلیخا نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ وہ اس وقت صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی۔ شرافت چارپائی پر بیٹھا دیسی گھی کے پراٹھے اور اچار کے ساتھ ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔
’’ایک تو اس کم بخت سے میں بہت تنگ ہوں۔۔۔‘‘زلیخا ماتھے پر بل ڈال کر بولی تھی۔
’’تنگ تو نہیں کرتا بس خبر لاتا ہے کہ مہمان آنے والے ہیں۔۔۔‘‘
’’منحوس کہیں کا۔۔۔ اس کی لائی خبر غلط بھی تو نہیں ہوتی۔ جب بھی کائیں کائیں کرتا ہے افشاں اپنی فوج کے ساتھ آجاتی ہے۔۔۔‘‘
’’تو پھر تیاری کرلو۔۔۔ افشاں آتی ہی ہو گی ۔۔۔ اپنی فوج کے ساتھ۔۔۔ آخر سہیلی ہے تمہاری۔۔۔‘‘ آخر میں شرافت کا لہجہ طنزیہ ہوگیا تھا۔ پھر شرافت نے پراٹھے کا ایک ٹکڑا چھت کی طرف اچھال دیا۔ وہ جب بھی اس کے گھر آتا تھا۔ شرافت اسے کھانے کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ دیتا تھا۔ اس نے کمال مہارت سے فضا میں ہی ٹکڑا اُچک لیا تھا۔۔۔ اور منڈیر پر ہی بیٹھ کر کھانے لگا تھا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ لقمہ شرافت کے گلے میں ہی پھنس کر رہ گیا تھا۔ زلیخا نے آگے بڑھ کر کنڈی گرا دی تھی۔ ایک فربہ خاتون دندناتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک منحنی سا آدمی اور سولہ سال سے لے کر آٹھ سال تک کے چار بچے بھی موجود تھے۔ شرافت اٹھ کھڑا ہواتھا۔
’’اے۔۔۔ ہے۔۔۔ہے۔۔۔ میری پیاری بہن زلیخا۔۔۔ میں تو اداس ہوگئی تھی۔‘‘ اس نے زلیخا کو اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا تھا۔ دوسری طرف وہ آدمی شرافت سے لپٹ گیا تھا۔ بچے صحن میں کھیلنے لگے تھے ۔۔۔ یہ افشاں تھی۔ وہ مہینے میں دو ایک بار اپنی پوری فیملی کے ہمراہ زلیخا سے ملنے ضرور آتی تھی اور جب مسافر بس گاؤں کے سٹاپ پر آکر رکتی تھی تو وہ کوا ہمیشہ ان کی آمد کو بھانپ لیتا تھا۔ اب اگلا مرحلہ شرافت کے گھر پر خبر پہنچانے کا ہوا تھا۔ جب تک افشاں اپنی فیملی کے ہمراہ یہاں موجود رہتی تھی۔ وہ کوا نظر آنے والے مناظر کا مشاہدہ کرتا رہتا تھا۔
’’اے بہن۔۔۔ تم لوگ خوش قسمت ہو جو گاؤں میں رہتے ہو۔ شہر میں تو زندگی بہت دشوار ہے۔‘‘ افشاں نے بات شروع کی تھی اور زلیخا بس سر ہلا کر رہ گئی تھی۔ افشاں سے اس کی ملاقات شہر میں ہوئی تھی۔ زلیخا کچھ ضروری گھریلو سامان کی خریداری کے لیے شہر گئی تھی اور پھر ایک دکان پر اسے افشاں مل گئی تھی۔ باتوں باتوں میں دوستی ہوگئی تھی۔ افشاں کو گاؤں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ زلیخا نے اسے بس ایسے ہی اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ مصروفیت کے اس دور میں کس کے پاس وقت ہے۔ وہ تو بس افشاں کا دل رکھ رہی تھی۔ مگر یہ دل لگی زلیخا کو مہنگی پڑ گئی۔اگلے ہی ہفتے افشاں زلیخا کے گھر پوری فوج کے ساتھ آدھمکی تھی۔ تب تو زلیخا کو بہت خوشی ہوئی تھی۔ وہ مہمان کو خدا کی رحمت سمجھتی تھی، مگر پھر کچھ ایسا ہواکہ یہ رحمت زحمت بنتی چلی گئی۔
شرافت علی کو وراثت میں کوئی کھیت نہیں ملا تھا۔وہ تو بس ایک کھیت میں مزدور تھا۔ اس نے محنت کر کے اپنا ایک چھوٹا سا آشیانہ بنایا تھا اب وہ بھینس کا مالک تھا۔ عید قرباں پر فروخت کرنے کے لیے وہ چھ بکرے بھی پال رہا تھا۔ سارا سال تو وہ زمینداروں کے کھیتوں میں کام کرتا ہی تھا مگر جب گندم کی کٹائی کا موسم آتا تھا تو دونوں میاں بیوی مل کر کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ مگر اجرت میں پیسوں کی بجائے وہ زمیندار سے گندم لے لیتے تھے۔ یہ گندم ان کے سال بھر کا راشن ہوتی ۔ یوں وہ ایک اچھی خوش حال زندگی بسر کررہے تھے کہ ایسے میں افشاں نے کسی ناگہانی آفت کی مانند ان کی زندگی میں قدم رکھا تھا۔
’’اے بہن۔۔۔ تم لوگوں کا خرچ ہی کیا ہے۔ کھلی آب و ہوا۔۔۔ گھر میں پانی کا نلکا لگا ہوا ہے۔ بجلی کا خرچ نہ ہونے کے برابر اور پھر بجلی کا بل بھی معمولی ہی آتا ہوگا۔ دودھ گھر کا ہے۔ آٹا گھر کا ہے اور لکڑیوں کا ایندھن ہونے کی وجہ سے گیس کی بھی بچت۔۔۔ ہمیں دیکھو۔۔۔ ہم شہر میں یوں جی رہے ہیں کہ بس جیسے دوزخ میں آگئے ہوں۔ اب تو وہاں آٹے کا بھی کال ہوگیا ہے۔ اب کی بار تو میں اپنی بہن کے گھر سے گندم کی ایک بوری لے ہی جاؤں گی۔۔۔‘‘ افشاں کی یہ بات سن کر شرافت تو گھبرا گیا تھا۔ زلیخا کی بھی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
’’کم بختوں۔۔۔ کہے دیتی ہوں۔۔۔ رُک جاؤ۔۔۔‘‘ افشاں نے اپنے بچوں کو ڈانٹا تھا۔ وہ دیسی مرغیوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ اس کا بڑا بیٹا ایک بکرے کو ٹکر مارنے کا طریقہ سکھا رہا تھا۔ بکرا چند قدم پیچھے ہٹ کر پھر اپنی اگلی ٹانگیں اٹھا کر ٹکر مارتا تھا۔ عجیب طوفان بدتمیزی برپا تھا اور شرافت اور اس کی بیوی بے چارے شرافت کے مارے خاموش تھے۔ اُن کے جانے کے بعد دونوں میاں بیوی میں جھگڑا ہو گیا تھا۔برتن بھی چلے تھے اور کوا کائیں۔۔۔ کائیں کرتا اڑ گیا تھا۔
ابھی تین ہفتے ہی گزرے تھے کہ کوا پھر سے خبر لے آیا تھا۔
’’کائیں۔۔۔کائیں۔۔۔کائیں۔۔۔‘ جب مہمان آتے تھے تو کوے کا انداز ہی کچھ اور ہوتاتھا۔ وہ منڈیر پر بیٹھا اپنے پر پھیلا رہا تھا۔
’’اب کیا کریں۔۔۔ ‘‘ شرافت نے زلیخا کی طرف دیکھاتھا۔ زلیخا نے شرافت کی طرف دیکھا پھر شرافت نے دوڑ لگا دی۔۔۔۔ اس کے ہاتھ میں تالا موجود تھا۔’’ایک ترکیب ہے‘‘شرافت نے گھر کے دروازے کو باہر سے تالا لگا دیا تھا اور پھر دیوار پھاند کر گھر کے اندر آگیا تھا۔ اب دونوں میاں بیوی دیوار کے ساتھ دبک کر بیٹھ گئے تھے۔ کوا منڈیر پر بیٹھا اس غیر متوقع منظر کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گلی میں بہت سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ پھر ان کے کانوں سے افشاں کی حیرت میں ڈوبی آواز ٹکرائی۔ ’’اے ۔۔۔ ہائے یہ کہاں چلے گئے۔۔۔‘‘
’’مم۔۔۔ مم۔۔۔مجھے کیا معلوم۔۔۔؟‘‘ اس کا شوہر ہکلاتا تھا۔
’’ستیا ناس ۔۔۔ ہمارا چار سو روپیہ جو کرائے پر صرف ہوا ضائع چلا گیا۔۔۔‘‘
’’با۔۔۔ با۔۔۔بکرے کا کیا ہوگا۔۔۔‘
’’ہم دو چار دنوں میں پھر سے واپس آئیں گے۔ان بے وقوفوں سے بکرا ہتھیانا کون سا مشکل کام ہے‘‘
’’ پھر۔۔۔ پھر سے چار سو روپیہ خرچ ہوگا۔۔۔‘‘
’’چپ رہو۔۔۔ ہزاروں کا فائدہ بھی تو ہو گا۔۔۔‘
پھر افشاں اپنی فوج کے ساتھ نامراد ہی واپس لوٹ گئی۔ انہیں واپس جاتادیکھ کر کوا چیخنے لگا تھا۔
’’کائیں۔۔۔کائیں۔۔۔کائیں۔۔۔‘‘
شرافت اور زلیخا ایک دوسرے کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ بے چارے شرافت کے مارے تو کچھ کرنے کے قابل نہیں تھے کہ کسی کا دل نہ ٹوٹ جائے۔ وہ تو کوے نے انہیں بچا لیا تھا۔ اب وہ تشکر بھری آنکھوں سے کوے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ زلیخا کوے سے نفرت کرتی تھی۔ اب نفرت دم توڑ چکی تھی۔ اب شرافت کے ساتھ ساتھ وہ بھی کوے کا خیال رکھنے لگی تھی۔ کوے کو یہاں سے کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ جب محبت ملی تو کوے کا ڈر دور ہوگیا ۔ اب وہ صحن میں بھی اتر آتا تھا۔ وہ مرغیوں کے ساتھ کھیلتا تھا۔ بکروں کے ساتھ شرارتیں کرتا تھا۔ جب زلیخا گوشت صاف کرتی تو وہ ایک آدھ بوٹی زلیخا کے ہاتھ سے چھین لیتا۔ زلیخا کو اس کوے کی حرکتوں پر غصہ تو آتا تھا مگر وہ کوا کام کی خبر بھی تو لاتا تھا۔
گزشتہ دو ہفتوں میں افشاں اپنی فوج کے ہمراہ چار بار ہلا بولنے آئی تھی۔ مگر ہر بار مایوس واپس لوٹی تھی۔ آخری بار تو وہ گھر کے دروازے کے باہر کھڑی ہو کر زلیخا اور شرافت کو بددعائیں ہی دینے لگی تھی۔ گلی کے موڑ تک وہ انہیں کوستی چلی جا رہی تھی اوریہ دونوں میاں بیوی دیوار کے ساتھ لگے مسکرا رہے تھے۔ کوا منڈیر پر بیٹھا چیخ رہا تھا جیسے وہ بھی افشاں کو خدا حافظ کہہ رہا ہو۔
پھر بہت سے دن گزر گئے۔ اب امن تھا‘ سکون تھا۔ افشاں اُن کے ذہن سے محو ہو چکی تھی۔ زندگی ایک دائرے میں گزررہی تھی۔ ایک دن زلیخا کے گھر گاؤں کی چند عورتیں آبیٹھیں۔وہ زلیخا کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ اس کوے کی بے باکیوں کو بھی بھانپ رہی تھیں۔ کوا تو اس گھر کا پالتو بن چکا تھا۔ وہ زلیخا کے اطراف میں ہی منڈلاتا پھر رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر ایک عورت بولی ’’بہن اس منحوس پرندے کا گھر میں کیا کام۔۔۔ بھگاؤ اسے۔۔۔‘‘ یہ بات سن کر کوا منڈیر پر جا بیٹھا تھا۔ زلیخا اس کی طرف دیکھنے لگی تھی۔ ’’منحوس کاہے کا۔۔۔ پرندہ ہی تو ہے ۔۔۔‘‘
’’تم نہیں جانتی بہن۔۔۔ یہ مردار خور ہے۔ اوپر سے سیاہ رنگ۔۔۔ ان کے ساتھ تو چڑیلوں کا سایہ ہوتا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو بہن۔۔۔‘‘ زلیخا کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
’’پرسوں گاؤں میں فخرو کی موت ہوئی تھی۔ اسی منحوس کی وجہ سے تو ہوئی تھی۔۔۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو بہن۔۔۔‘‘
’’اس نے فخرو کے گھر ہڈی گرا دی تھی۔ جانے کہاں سے اٹھا کر لایا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ قبرستان سے کسی مردے کی ہڈی اٹھا لایا ہو۔ ایسا اثر ہوا۔۔۔ ایسا اثر ہوا کہ فخرو مرگیا۔۔۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو بہن۔۔۔‘‘
’’سچ ہی تو کہہ رہی ہوں۔ جھوٹ تھوڑا ہی بولوں گی۔۔۔‘‘ بس جناب زلیخا باتوں میں آگئی تھی۔ اس نے ایک کونے سے مٹی کا ڈھیلا اٹھایا اور اپنے محسن کوے پر دے مارا۔ کوے کو زلیخا سے اس حرکت کی امید نہیں تھی۔ وہ کائیں‘ کائیں کرتا اڑ گیا تھا۔ اس کا دل رو‘ رو کر فریاد کررہا تھا۔
’’اے پاک اللہ۔۔۔ ہزاروں سالوں سے انسان کی فطرت نہیں بدلی۔ جو اسے نفع دے یہ اسی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ درخت انہیں پھل‘ سایہ اور آکسیجن دیتا ہے۔ یہ اسی کو کاٹ کر چولہے کا ایندھن بنا دیتے ہیں۔۔۔‘‘
وہ مسجد کے مینار پر آبیٹھا تھا۔ اس کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کبھی وہ شرافت کے گھر نہیں جائے گا۔ ایک دو دن میں شرافت نے بھانپ لیا تھا کہ اب کوا نہیں آتا۔ اس نے زلیخا سے پوچھا تو وہ بولی ’’وہ منحوس تھا۔ اس کے ساتھ چڑیلوں کا سایہ تھا۔ پچھلے دنوں گاؤں میں جو فخرو کی موت۔۔۔‘‘ اس نے اپنی سہیلیوں کی باتیں دھرادیں تھیں۔ شرافت تو افسوس سے سر ہلانے لگا تھا۔
’’ارے بے وقوف۔۔۔ کیا تو نہیں جانتی کہ موت اور زندگی کا مالک اللہ ہے۔ کیا تو نہیں جانتی کہ عزت اور ذلت کا مالک اللہ ہے۔ ان خدائی اوصاف میں بھلا اس معصوم پرندے کا کیا عمل دخل۔۔۔ تم نے اچھا نہیں کیا۔ وہ احسان کرنے والا تھا اور تم احسان ناشناس ہو۔۔۔‘‘ مزید دو ہفتے گزر چکے تھے۔ وہ صبح کا وقت تھا۔ شرافت چارپائی پر بیٹھا ناشتہ کررہا تھا۔ زلیخا صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی کہ اچانک شرافت کے کانوں سے پھڑپھڑاہٹ کی آواز ٹکرائی۔ شرافت نے سر اٹھا کر دیکھا تو کوا منڈیر پر آبیٹھا تھا۔ وہ بہت اداس تھا۔ وہ بہت خاموش تھا۔ شرافت نے پراٹھے کا ایک ٹکڑا توڑ کر اس کی طرف پھینکا تھا۔ مگر اس نے ٹکڑا اچکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ تو بس خاموشی سے کبھی شرافت کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی زلیخا کی طرف دیکھتا تھا۔ اب کی بار زلیخا نے اسے اڑانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ شاید وہ اپنے رویے پر شرمندہ تھی۔ تھوڑی د یر گزری تھی کہ اچانک دروازے پر زور دار اندا زمیں دستک ہوئی۔ شرافت گھبرا گیا تھا۔
’’یا اللہ خیر۔۔۔ کون اتنی جلدی میں ہے۔۔۔‘‘ پھر اس نے کنڈی گرادی۔ ’’اے بہن۔۔۔ ہم تو تم لوگوں کی شکلیں دیکھنے کو ترس گئے تھے۔۔۔‘‘ یہ افشاں تھی۔ وہ اپنی فوج کے ہمراہ دندناتی ہوئی گھر میں داخل ہورہی تھی۔ حیرت اور صدمے سے شرافت اور زلیخا کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔ پھر انہوں نے یک بارگی منڈیر کی طرف دیکھا۔ وہ کوا اب بھی منڈیر پر بیٹھا ہوا تھا۔ مگر وہ کچھ عجیب سی حرکتیں کررہا تھا۔ کبھی وہ ایک ٹانگ پر جھکائی دیتا تو کبھی دوسری ٹانگ پر۔ یوں جیسے ساون میں مور ناچ رہا ہو۔ پھر وہ کائیں۔۔۔ کائیں کرتا اڑ گیا۔ زلیخا کو ایک لمحے کے لیے یوں محسوس ہوا تھا کہ جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ احسان ناشناسائی کا اس سے اچھا جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ صحن میں افشاں کے بچوں نے طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا تھا اور وہ بے چارے شرافت کے مارے خاموش تھے۔
***

حصہ

جواب چھوڑ دیں