ناقابل علاج ذہنی دبائو سے نجات ممکن ہوگئی

قدرتی جڑی بوٹیوں میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے شفا اور طاقت کا خزانہ چھپا رکھا ہے۔ پودوں اور جڑی بوٹیوں کے ذریعے کئی پیچیدہ اور لاعلاج بیماریوں کا علاج دریافت کیا جاچکا ہے۔ اب حال ہی میں امپیریل کالج لندن کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے عام پائے جانے والی کھُمبیوں سے ناقابل علاج ذہنی دبائو کے علاج میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔
ڈاکٹر روبن کارہارٹ ہیرس کی سربراہی میں ایک ٹیم نے 19 مریضوں پر تجربات کیے۔ یہ تجربات 5 ہفتے تک جاری رہے، ان تجربات میں متاثرہ مریضوں کو 5 ہفتے تک سائیلو سائبین سے اخذ کردہ سائیکیڈیلک کی ایک خوراک استعمال کرائی گئی۔ اسٹڈی میں یہ دیکھا گیا کہ نصف مریضوں نے اپنی یاسییت اور ذہنی دبائو سے نجات حاصل کرلی اوران کی دماغی سرگرمیوں میں بہتری ریکارڈ کی
گئی۔
اس اسٹڈی کے دوران ظاہر ہوا کہ سائلو سائبین دماغ کے دو کلیدی حصوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔نمبر ایک امیگڈلا جو کہ جذبات جیسے کہ خوف اور تشویش کے بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، وہ اس کی فعالیت میں کمی واقع ہوئی جب کہ بہتری کی علامتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔دوسرے نمبر پر دماغ کے مختلف حصوں کا باہمی اشتراک سائلو سائبین کے استعمال کے بعد مزید مستحکم ہوا۔ڈاکٹر روبن کا کہنا تھا کہ یاسیت یا ذہنی دبائو کا شکار دماغ جکڑا ہوا تھا اور سائیکیڈیلک تجربے کے بعد وہ ری سیٹ ہوگیا۔
تاہم یہ ایک چھوٹی اسٹڈی تھی اور ہمارے پاس صحت مند لوگوں کا کوئی ایسا گروپ نہیں تھا جس سے دماغ کے اسکین کا موازنہ کیا جاتا۔
اگرچہ سے سائلو سائبین کے استعمال سے ذہنی دبائو اور یاسیت سے نجات میں کامیابی تو ملی ہے تاہم ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ لوگ از خود اس کو استعمال کرنے سے گریز کریں کیوں کہ سائلو سائبین کے استعمال سے ذہنی دبائو اور یاسیت سے تو نجات مل سکتی ہے لیکن دماغ کے دیگر افعال پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا اندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکا ہے۔
ڈاکٹر روبن کا کہنا تھا کہ ابھی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے کہ آیا سائلو سائبین کو یاسیات اور ڈپریشن کے علاج طور پر قبول کیا جاسکتا ہے ، تاہم اس میں  کوئی شک نہں کہ علاج کے لیے نئے طریقوں کی ضرورت ہے۔
حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...

جواب چھوڑ دیں