’نوچی‘ کا بھونڈا استعمال

    جسارت کے ایک بہت مقبول اور قارئین کے پسندیدہ کالم نگار، ادیب وشاعر ’’بالخصوص‘‘ کو عموماً باالخصوص لکھتے ہیں، یعنی ایک الف کا اضافہ کردیتے ہیں۔ لیکن اس سے تلفظ بھی بگڑ جاتا ہے اور با۔الخصوص ہوجاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بالکل میں بھی ایک الف بڑھا دیا جائے۔ اب تو کچھ لوگوں کو بالکل میں ایک الف بھی گوارہ نہیں اور ان کی دلیل ہے کہ جیسے بولا جاتا ہے ویسے ہی لکھنا چاہیے۔ ہمارے یہ لسانی دانشور اس اصول کا اطلاق انگریزی پر نہیں کرتے، مثلاً نالج کے شروع میں یہ جو فضول سا K ہے اسے نہ لکھا کریں۔ انگریزی میں ایسے کئی K فالتو ہیں جو بولے نہیں جاتے مگر لکھے جاتے ہیں۔
    بعض املا اور تلفظ لڑکپن ہی میں پختہ ہوجاتے ہیں اور لاشعوری طور پر استعمال ہوجاتے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت میں بچوں کے صفحے پر املا درست کرنے کی کاوش نظر آتی ہے۔ یہ بہت اچھا سلسلہ ہے۔ بچوں کا املا درست ہوگا تو وہ بڑوں کو بھی درست کرسکیں گے۔ ہم اب تک ’کسر‘ اور ’کثر‘ میں گڑبڑا جاتے ہیں۔ عرصے تک گلف (GULF) کو گلْف (بضم اول) کہتے رہے اور اب بھی کئی الفاظ کے تلفظ میں گڑبڑا جاتے ہیں۔
    ایک لفظ ’’نوچی‘‘ تقریباً متروک ہوچکا ہے البتہ لغات میں موجود ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس کا مطلب اچھا نہیں ہے۔ 21 اگست کے ایک اخبار میں ایک بہت سینئر صحافی نے اپنے سیاسی منظرنامہ میں یہ لفظ استعمال کیا ہے لیکن بہت بھونڈے طریقے سے۔ سیاسی تجزیے میں ان کا جملہ ہے ’’محل سرا کی نوچیاں غلام گردش میں پلنے والی سازشوں کی کہانیاں سنارہی ہیں‘‘۔ ان صحافی کو نوچی کا مطلب تو معلوم ہوگا اور یہ لفظ شعوری طور پر استعمال کیا گیا ہوگا۔ ’’نوچی‘‘ اُس نوعمر لڑکی کو کہتے ہیں جس سے طوائفیں پیشہ کراتی ہیں۔ یہ ان کے مستقبل کی ضمانت ہوتی ہیں۔ اب ذرا مذکورہ جملے میں نوچی کے استعمال پر غور کریں۔ یہ محل سرا کس کی ہے جہاں غلام گردش میں نوچیاں ٹہلتی پھرتی ہیں اور سازشوں کی کہانیاں سناتی پھرتی ہیں۔ نوچی فارسی زبان کا لفظ ہے مگر کیا کوئی نوچی کسی صحافی سے ٹکرا گئی ہے؟ سوال یہ ہے کہ یہ نوچیاں کس نے پال رکھی ہیں اور کس کی نگرانی میں ہیں؟ معذرت کے ساتھ، ایک متروک لفظ کا احیا تو ہوگیا لیکن اخلاق سے باہر۔ مناسب تھا کہ اس کی جگہ خادمائیں کا لفظ استعمال کیا ہوتا۔
    ایک بڑے اخبار کے مضمون کی سرخی تھی ’’گھر ملازم بچوں کی مقتل گاہ بن گئے‘‘۔
    گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ اس حوالے سے مضمون چشم کشا ہے، لیکن یہ ’’مقتل گاہ‘‘ کیا ہوتا ہے؟ صرف مقتل کافی ہے، اس میں گاہ کا مفہوم موجود ہے۔ ایسے ہی مذبح خانہ غلط ہے۔ یا تو صرف مذبح لکھا جائے یا ذبح خانہ۔
    اردو میں رائج ہونے والی انگریزی اصطلاحات کے بارے میں تو عموماً تشریح ہوتی رہتی ہے اور ان کی اصل تک پہنچا جاتا ہے۔ عربی، فارسی کے کئی الفاظ ایسے ہیں جو اردو میں آکر اپنے معانی بدل چکے ہیں، مثال کے طور پر جلوس۔ ایسے ہی عربی کا ایک لفظ ہے ’’اِختراع‘‘۔ عربی میں اس کے مطلب وہ نہیں جو اردو میں ہیں۔ یہ اسم مذکر ہے اور لغوی معنیٰ ہیں چیرنا، پھاڑنا، ایجاد، اپچ، کسی بات میں حاشیہ لگانا، جھوٹ ملانا وغیرہ۔ اصطلاحاً نئی بات نکالنا۔ اور اردو میں انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، جیسے داغؔ کا یہ شعر ؂
    غیروں کا اختراع و تصرف غلط ہے داغؔ
    اردو ہی وہ نہیں جو ہماری زباں نہیں
    اس کے جواب میں لکھنؤ اور بہار والوں نے بھی دعوے کیے۔ لکھنؤ کے ایک صاحب بولے ’’دعویٰ زباں کا لکھنؤ والوں کے سامنے‘‘۔
    ایسے ہی ایک لفظ ہے ’’اِدبار‘‘۔ آج کل بہت سے لوگ اس کا شکار ہیں۔ عربی کا اسم مذکر ہے اور مطلب ہے پیٹھ دینا۔ اصطلاحاً دولت کا منہ موڑنا، اقبال کا نقیض، بدنصیبی، بدقسمتی، شامت، نحوست، دلدّر، ہزیمت، شکست، مفلسی، ناداری وغیرہ۔
    عربی میں انگلیوں کے بھی مختلف نام ہیں جیسے اردو میں چھوٹی انگلی کو چھنگلی کہتے ہیں اور پنجابی میں چیچی۔ علاوہ ازیں شہادت کی انگلی، بیچ کی انگلی وغیرہ۔ عربی میں انگشتِ شہادت کو ’سبابہ‘ کہتے ہیں لیکن اس کے اصل معنی ہیں ’’گالی دینے والی انگلی‘‘۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ انسان گالی دیتے ہوئے اسی انگلی سے اشارہ کرتا ہے اور دھمکاتا ہے۔ یہ لفظ حدیثوں میں بھی آیا ہے چنانچہ بخاری کی ایک حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اور یتیم کی دیکھ بھال کرنے والا جنت میں ایسے قریب ہوں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا۔ بعد میں اس کا نام ’’مسجہ‘‘ پڑ گیا یعنی تسبیح والی انگلی۔ یہ نام اس لیے دیا گیا کہ نماز میں تشہد کے دوران میں اس سے اشارہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اردو میں بھی شہادت والی انگلی کہا جاتا ہے۔
    اردو میں ایک عام لفظ ہے ’’زون‘‘۔
    سیاسی جماعتوں میں بھی مستعمل ہے۔ اس کے معانی علاقہ، خطہ وغیرہ ہیں۔ جغرافیے میں سطح دنیا کی تقسیم کے پانچ بڑے ارضی خطوں میں سے ایک۔ انگریزی لفظ ZONE یونانی ’زو نے‘ سے ماخوذ ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس کا مطلب ہے ’کمربند‘۔ آپ پوچھیں گے کہ خطے کا کمربند سے کیا تعلق ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ اگر ہم کرۂ ارض پر کسی خطے کی نشاندہی کریں (جیسے استوائی خطہ) اور اس کو رنگ دیں تو وہ کرۂ ارض پر ایک بیلٹ بن جائے گا۔ اسی کو یونانیوں نے کمربند سے تعبیر کیا جو انسان کے درمیانی حصے کو گھیرے میں لیے ہوئے ہوتا ہے۔ ایک جِلدی بیماری کو بھی انگریزی میں ZONE کہتے ہیں کیونکہ یہ کمربند کی طرح انسان کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ اس کو ZOSTER بھی کہتے ہیں۔ اس کے مطلب بھی یونانی میں کمربند کے ہیں۔ اس کا تیسرا نام HERPES ہے جس کے معنی سانپ کی طرح رینگنے والی بیماری ہے۔

    حصہ

    10 تبصرے

    جواب چھوڑ دیں