فرنگی بیماریاں

    ہمارے ہاں بہت کچھ باہر سے آتا ہے حتیٰ کہ کبھی کبھار وزیراعظم بھی۔ ہمارے اداروں کے نام بھی فرنگی ہیں۔ اور تو اور بیماریاں بھی انگریزی یا لاطینی میں حملہ آور ہوتی ہیں۔ چکن گونیا کا شکار ہوئے تو یہی سوچتے رہے کہ اپنی زبان میں اسے کیا نام دیں۔ لیکن یہی کیا، ڈینگی بخار، یلو فیور، نیگلریا وغیرہ بھی ہیں۔ ملیریا، ٹائیفائیڈ اور نمونیہ تو اپنے ہی سے لگتے ہیں۔ کسی ڈاکٹر سے جاکر کہیں کہ باری کا بخار، یا تپِ محرقہ یا میعادی بخار ہے تو وہ ذہنی حالت پر شک کرے گا۔ ممکن ہے کوئی حکیم صاحب سمجھ لیں کہ یہ ملیریا اور ٹائیفائیڈ ہیں۔ لیکن ’’ذات الرّیہ‘‘ تو شاید نوجوان حکیم بھی نہ سمجھ پائیں۔ یوں بھی نمونیہ تو اب اپنا ہی ہوگیا ہے۔ ویسے یہ بھی ’دساوری‘ ہے۔ انگریزی میں اس کے ہجے بھی مشکل ہیں جو N کے بجائے P سے شروع ہوتے ہیں۔ لیکن یہ دساوری کیا ہے؟ اس کی جگہ غیر ملکی یا ’فارن‘ آسان نہیں!
    معاف کیجیے، شاید ابھی ہم پر چکن گونیا کے اثرات باقی ہیں۔ ہماری عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاکر قارئین کو پرانے کالم بطور ’’نشر مکرر‘‘ پڑھوا دیے گئے، گو کہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ نئے ہی ہوں گے، ہمیں بھی نئے نئے سے لگے۔
    کہیں کوئی سہو ہوجائے تو ہمارے ممدوح جناب باب الدین، میرپورخاص سے بابِ التفات کھول دیتے ہیں۔ انہوں نے توجہ دلائی ہے کہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘ شمارہ 29 میں آپ نے ایک جگہ فرمایا ’’محطّہ تو ظاہر ہے احاطہ سے ہے‘‘۔ یہ صحیح نہیں۔ محطہ کا مصدر حَطّہ ہے جس کے دیگر معانی کے علاوہ ایک معنیٰ گرنا یا اترنا ہے۔ البتہ محیط اور محاط کا مصدر احاطہ صحیح ہے۔‘‘ اس سے آگے انہوں نے دل دہی کے لیے لکھا کہ آپ کا کالم نہایت شوق اور دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
    اور آپ کی تصحیح سے ہمارا فائدہ ہوجاتا ہے۔ سچی بات ہے کہ عربی ہماری اردو سے زیادہ کمزور ہے۔ مصادر یاد نہیں۔ محطہ کا تعلق احاطہ سے یوں جوڑ دیا تھا کہ یہ لفظ اردو میں عام فہم ہے۔
    اِحاطہ عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے گھری ہوئی چار دیواری، گھرا ہوا میدان، چار دیواری سے گھری ہوئی جگہ خواہ اس میں کوئی عمارت ہو یا نہ ہو۔ برطانوی ہند میں احاطہ پریزیڈنسی یا صوبے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا تھا جیسے احاطہ مدراس، احاطہ بنگال، احاطہ بمبئی وغیرہ۔ احاطہ کھینچنا کسی جگہ کو گھیرنا۔ آج کل شاید احاطے کی چائنا کٹنگ کردی جاتی ہے۔
    ایک محترم قاری جناب عقیل نے شکوہ کیا ہے کہ چراغ تلے اندھیرا ہے۔ حالانکہ اب چراغوں کی جگہ بلب جلتے ہیں جن کے نیچے نہیں اوپر اندھیرا ہوسکتا ہے۔ سنا ہے کہ ایک صاحب چراغ دین نے اپنا نام بدل کر بلب دین کرلیا تھا۔ عقیل صاحب کا اشارہ اس طرف ہے کہ ہم دوسروں کی غلطیاں تو پکڑتے ہیں لیکن خود جسارت اور فرائیڈے اسپیشل میں غلطیاں شائع ہورہی ہیں۔ اب کیا کیا جائے، کوئی ہماری اصلاح قبول کرنے پر تیار نہیں۔ لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں اثرات نظر آرہے ہیں۔ جسارت ہی میں گزشتہ دنوں ایک تین کالمی سرخی میں ’’غیض وغضب‘‘ شائع ہوا ہے۔ کئی بار سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ لفظ ’غیظ‘ ہے‘ غیض نہیں۔ غیض بھی عربی کا لفظ ہے لیکن اس کا کوئی تعلق غضب سے نہیں، اس کا مطلب کچھ اور ہے۔ کمپوزنگ کی غلطیاں تو ہوہی جاتی ہیں لیکن زبان کی غلطی قابلِ گرفت ہے۔
    فرائیڈے اسپیشل کے تازہ شمارے (32) میں ایک بہت اچھے قلم کار محمود عالم صدیقی کا بڑا معلوماتی مضمون ہے۔ ان سے پوچھنا صرف یہ ہے کہ کیا انہیں ’عہدہ برآ‘ کا مطلب معلوم ہے؟ لکھتے ہیں کہ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کے عہدے سے ازخود ’عہدہ برآ‘ ہوکر وزیراعظم بن گئے تھے۔ اس جملے سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں عہدہ برآ کا مطلب معلوم نہیں۔ اور معلوم تو ہمیں بھی نہیں۔ کسی نے بتایا تھا کہ اس کا مطلب ہے فرض ادا کرنا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یہاں دستبردار لکھ دیتے یا آسان زبان میں عہدہ چھوڑنے کی بات کرتے۔
    اسی سے عہدہ برائی ہے یعنی غلبہ حاصل کرنا، فرض ادا کرنا۔ رندؔ کا شعر ہے:
    رنج و غم و اندوہ کے نرغے میں ہوں یارب
    کس کس سے اکیلا میں کروں عہدہ برآئی
    یہ عہدہ برآ کے غلط استعمال کی تصحیح مدیرانِ فرائیڈے اسپیشل کو کرلینی چاہیے تھی۔ محمود عالم صدیقی تو ہمارا کالم پڑھتے ہی نہیں ہوں گے ورنہ ’ایما‘ کو ہر بار مونث نہ لکھتے ۔ ان کا جملہ ہے ’’امریکہ کی ایما پر‘‘۔ بھائی کتنی بار بتائیں کہ ایما مذکر ہے، مونث نہیں۔ شاید اسی کو چراغ تلے اندھیرا کہا گیا ہے۔
    ہمارے کسی کالم کا حوالہ دے کر افتخار مجاز لاہوری نے ردّا جمایا ہے کہ ایک بار امروز میں کسی خبر میں مقدس لکڑی شائع ہوا۔ مدیر ظہیر بابر نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ہالی وڈ کا ترجمہ ہے۔ اسی طرح نواب زادہ نصراللہ خان کو موسمی سیاست دان لکھا گیا جو SEASONED (سیزنڈ) کا ترجمہ تھا۔ اب تو خبریں عموماً انگریزی میں نہیں آتیں ورنہ ایسے ترجموں کی پوری کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔
    25 جولائی کے جسارت میں صفحہ 12پر ایک سرخی شائع ہوئی:
    ’’پاکستان کی تیسری آفاقی’معیادی‘ جائزہ رپورٹ‘‘۔ سرخی تو کیا پوری خبر ہی پلے نہیں پڑی کہ یہ کس قسم کی رپورٹ ہے۔ اس سے قطع نظر یہ ’’معیادی‘‘ کیا چیز ہے؟ معیادکوئی لفظ نہیں۔ یہ غالباً میعاد ہے۔ معیاد اور معیار اکثر ہمارے صحافی بھائیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں چنانچہ میعاد ’معیاد‘ اور معیار ’میعار‘ ہوجاتا ہے اور ’ی، بے جگہ ہوتی رہتی ہے۔ میعاد عربی کا لفظ ہے، قرآن کریم میں ’لا تخلف المیعاد، آیا ہے۔ مطلب ہے وقتِ معینہ، ایام مقررہ۔ جیسے کہا جاتا ہے ’’حکومت کی میعاد ختم ہوگئی ہے‘‘۔ امیر مینائی کا شعر ہے:
    کھول کر بال جو آتے ہیں وہ زنداں کی طرف
    کچھ بڑھا جاتے ہیں میعاد گرفتاروں کی
    میعاد کا مزید مطلب وعدہ، وعدے کا وقت۔ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ میعاد بولنا کا مطلب ہے قید کا حکم لگانا۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے ’’قید بول گئی‘‘۔
    ایک مشہور مقدمے میں ایک اخبار نے شہ سرخی لگائی تھی ’’تانگہ آگیا کچہریوں خالی۔ سجناں نوں قید بول گئی‘‘۔ ایک میعادی بخار بھی ہوتا ہے جو رہ رہ کر چڑھتا ہے جیسے اقتدار کا نشہ۔

    حصہ

    3 تبصرے

    جواب چھوڑ دیں