آپ کی چڑ کیا ہے؟

چِڑ ایک لاعلاج انسانی مرض ہے، حیوانات اس سے پاک ہوتے ہیں۔

چِڑ پر غوروفکر سے انسانی نفسیات کے ایسے ایسے گوشے ہمارے سامنے آئے کہ ہمیں چِڑ سے لگاؤ پیدا ہو گیا۔انسانی شخصیت میں چِڑ کو وہی مقام حاصل ہے جو خوبصورت چہرے پر تِل کو، چاند پر داغ کو، آم میں گٹھلی کو، اور کھانے میں نمک کو حاصل ہے، یعنی چِڑکے بغیر شخصیت مکمل نہیں ہوتی۔ جس طرح ہر انسان کی ایک شناختی علامت ہوتی ہے اور اس علامت کو درج کرنے کے لیے شناختی کارڈ جاری کیے جاتے ہیں، اسی طرح چِڑ بھی شخصیت کا لازمی جز ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ نہایت معقول شخص میں بھی ایک نہایت نامعقول چِڑ موجود ہو سکتی ہے۔لوگوں کو بہت سی چیزیں ناپسند ہوتی ہیں لیکن چِڑ کے درجے پر صرف وہی چیزیں فائز ہو پاتی ہیں جن سے ناپسندیدگی ان کو اچانک نامعقولیت تک پہنچا دےاور وہ اس نامعقولیت کا فوراً اور بے ساختہ اظہار کر بیٹھیں۔

چِڑ محض دو حرفی لفظ نہیں، یہ ایک نرالی دنیا ہے، یہاں ہم سب کی چِڑیں جمع ہیں، رنگ رنگ کی، عجیب عجیب ، اور قِسم قِسم کی چڑیں۔ طالب علم کو استاد سے چِڑ ہوتی ہے، اور استاد کو سوال سے۔ دکاندار کو ناپ تول سے چِڑ ہوتی ہے،اور فقیر کو سکّے سے۔ ادیب کو ردّی کی ٹوکری سے، بینکر کو خسارے سے، چوکیدار کو چوبارے سے، شادی شدہ کو چھوہارے سے چڑ ہوتی ہے۔ پولیس کو قانون سے، وکیل کو دلیل سے، اور گواہ کو جرح سے چِڑ ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین اپنے سے زیادہ حسین خواتین سے چِڑتی ہیں، حالانکہ ایک طرف وہ خود کو سب سے زیادہ حسین سمجھتی ہیں، اور دوسری طرف وہ کسی حسین خاتون کو اپنے سے زیادہ حسین سمجھ کر خود بخود اُس سے چِڑنے لگتی ہیں:

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

ایک صاحب کو جلیبی نہایت پسند تھی، لیکن روز جلیبی کھانے کا منہ کہاں سے لاتے۔ بہت سوچ بچار کے بعد ترکیب سوجھی۔ اپنے بارے میں یہ مشہور کر دیا کہ جلیبی سے چِڑ ہے۔  محلّے کے لوگ انہیں چھیڑنے کے لیے جلیبی کا تھال ان کے گھر بھجواتے، اور دیوار سے کان لگا کر سنتے۔ موصوف بلند آواز میں مغلظات بکتے، گالیاں دیے جاتے، چپکے چپکے جلیبی اڑاتے جاتے۔ اِدھر لوگ چھیڑ کر خوش۔ اُدھر وہ  مفت کی جلیبیاں اُڑا کر خوش۔

عام طور پر اُن چیزوں سے چِڑ ظاہر کی جاتی ہے جو آسانی سے سمجھ میں نہ آ سکیں، مثلاً الجبرا، فلسفۂ خودی، آئن اسٹائن کا نظریہ، محبوبہ کے والد کا مزاج، ن م راشد کی شاعری۔ جب ایسی مشکل چیزیں سمجھ میں آ نے لگیں تو چِڑ غائب ہو جاتی ہے اور انسیت پیدا ہونے لگتی ہے۔

جب آپ باتیں کرتے کرتے مخاطب سے کوئی ایسی بات کہہ دیں کہ اُس کے تیور بدل جائیں، وہ پہلو بدلنے لگے، یا  بھڑک اٹھے تو جان لیں کہ یہی بات اس کی چِڑ ہے۔ مزید تصدیق کے لیے یہی عمل دہرائیں (تھوڑا فاصلہ رکھ کر)۔

ہمارے ایک دوست جو عام طور پر ضرورت سے زیادہ خوش مزاج ہوا کرتے تھے، ایک دن فرمانے لگے، جب سو کر اٹھتا ہوں اور اُس وقت کوئی مجھے مسکراتا  ہوا مل جائے تو بہت غصّہ آتا ہے، دل چاہتا ہے کہ زور کا تھپّڑ لگاؤں۔ ہم نے فوراً اپنی مسکراہٹ جذب کر لی او ر ان کے اس جلال کی وجہ پوچھی۔ جواب ملا، ایک بار والد محترم نے میرے ساتھ یہی سلوک کیا تھا، اب دوسروں کے ساتھ یہی کرنے کو دل چاہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ چِڑ موروثی بھی ہو سکتی ہے۔

چِڑ ایک انسانی وصف ہے، یہ شعور کی علامت ہے۔ جانوروں میں یہ نہیں پائی جاتی ۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ چِڑ سے پاک ہے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ مشہور ہو اس میں اتنی ہی زیادہ چڑیں موجود ہوتی ہیں۔

ہم نے ایک سروے میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ لوگ عام طور پر کن لوگوں یا چیزوں سے چِڑتے ہیں، چنانچہ یہ عجیب و غریب فہرست تیار ہوئی:اُبلا ہوا انڈا، نجومی، ہلتی ہوئی کرسی،  برج سرطان،  فینائل کی گولیاں، حقّے کی گُڑگُڑ، براؤن لپ اسٹک، شیکسپیئر، الجبرا، بہتی ہوئی ناک، ہاکی کے گول کیپر کا لباس، مولانا آزاد، بلیک کافی، پریشر ہارن،  شلجم کا اچار۔

بہر حال، چِڑ ایک عالمگیر انسانی خصوصیت ہے، یہ شخصیت کی انفرادیت ہے۔ اس پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اس بے ڈھنگے پن سے نہیں کہ آپ کی ایک اور چِڑ وجود میں آ جائے۔

حصہ
تحریر و تصنیف کے شعبے میں اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عامل صحافی تھے، فی الحال مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ایم اے ابلاغ عامہ اردو کالج کراچی سے ۱۹۹۸ء میں کرنے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی، جس کا تعلیم پر کوئی برا اثر نہیں پڑا، البتہ نئی نسلوں کو عبرت ملی کہ تعلیم چھوڑ دینے کا کیا نقصان ہوا کرتا ہے۔ اردو اور انگریزی فکشن سے دلچسپی ہے، اردو میں طنز و مزاح سے۔

جواب چھوڑ دیں