مزید بینک، مزید ڈاکو

ڈاکوؤں اور بینکوں کا باہمی تعلق بہت گہرا ہے۔ ظاہری تعلق تو ہے ہی، یعنی ڈاکو بینک لوٹتے ہیں، اور بینک عوام کو۔ اس کے ساتھ ساتھ اس تعلق کی اور بہت سی پرتیں ہیں۔

ایک دن جب ہم بینک میں بجلی کے بل کی رقم جمع کرانے کے لیے قطار میں لگے ہوئے تھے ، کوئی اور کام تھا نہیں ، چنانچہ غوروفکر شروع کر دیا ، خیالات کا گھوڑا نہ جانے کن کن وادیوں میں جا پہنچا۔

عام لوگ ڈاکوؤں چوروں سے بچانے کے لیے پیسے بینکوں میں رکھواتے ہیں، ڈاکو ان بینکوں کا رُخ کرتے ہیں، اکثروبیشتر ڈکیتی میں کامیاب رہتے ہیں اور لاکھوں روپے لوُٹ کر چلتے بنتے ہیں۔ عام لوگ ضرورت پڑنے پر ، یا جب چاہیں بینک  جائیں ، بینک اُن کے مطالبے پر اُن کی رقم پوری پوری واپس کر دیتے ہیں۔ بینک کبھی یہ معذرت نہیں کرتے کہ آپ کی رقم تو ڈاکو لوُٹ کر لے گئے، ہم آپ کو نہیں دے سکتے۔یہ نظام کچھ ایسی خوش اسلوبی سے چل رہا ہے کہ کوئی نوٹس تک نہیں لیتا۔ اگر خدانخواستہ اُس برانچ میں ڈاکہ پڑے جہاں آپ نے اپنا کھاتہ کھول رکھا ہے، تب بھی اس ڈکیتی کی خبر پڑھ کر آپ کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ کیا آپ دوڑے دوڑے بینک جا کر پوچھیں گے کہ آپ کی رقم محفوظ ہے؟ ظاہر ہے، نہیں۔ آپ اخبار ایک طرف ڈال کر نیشنل جگرافک پر  مگر مچھوں پر دستاویزی فلم دیکھنے لگ جائیں گے، اور اگلے لمحے تک ڈکیتی کی خبر آپ کے ذہن سے اتر جائے گی۔ ایسا اس لیے ہے کہ بینک آپ کی رقم کی حفاظت کے ذمّہ دار ہیں، اس حفاظت کے عوض وہ آپ کی رقم سے سوُد کماتے ہیں، سوُد کی اس رقم سے بینک اپنے اخراجات بھی پورے کرتے ہیں اور ڈاکوؤں سے ہونے والا نقصان بھی۔ تھوڑا بہت سوُد نفع کے نام سے کھاتے داروں کو دے دیتے ہیں۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگ اگر بینکوں سے رقوم نکلوا کر گھر میں رکھ لیں تو ایک طرف تمام بینک ٹھپ ہو کر بند ہو جائیں گے، دوسری طرف ڈاکو اپنا کام بند نہیں کریں گے، وہ لوگوں کے گھروں پر (زیادہ آسانی کے ساتھ) ہاتھ صاف کرنے لگیں گے اور لوگوں کے ہاتھ کچھ  نہیں رہے  گا۔  چنانچہ معلوم ہوا کہ آپ اپنی رقم کی حفاظت کے لیے بینکوں کے محتاج ہیں اور بینک اپنا کاروبار چلانے کے لیے آپ کے محتاج ہیں۔ ڈاکو بھی محتاج ہیں لیکن اس محتاجی دور کرنے کا طریقہ ذرا مختلف ہے۔

گفتگو کے آغاز میں جس تعلق کی بات ہوئی تھی اس پر غور کرنے سے سوال اٹھتا ہے کہ لوگ ڈاکو بنتے کیوں ہیں اور کیسے؟

یوں تو ڈاکو ہر دور میں رہے ہیں تاہم آج ان کا جتنا زور ہے پہلے نہیں تھا۔ ڈاکو بننے کے جراثیم کچھ تو فطری طور پر پائے جاتے ہیں، کچھ وجہ معاشرے کی غفلت بھی ہے، گویا

کُجھ شہر دے لوگ بھی ظالم سن

کُجھ سانومرن دا شوق وی سی

ڈاکوؤں کی افزائش میں دوسرے اسباب کے علاوہ ایک بڑا سبب غربت، بے روز گاری اور ناانصافی بھی ہے (یعنی ایک طرف ڈاکو ظالم ہیں تو دوسری طرف کچھ ڈاکو مظلوم بھی ہیں جو حالات سے مجبور ہو کر اس طرف نکل آئے ہیں)۔  ملک  میں غربت، بے روزگاری اور ناانصافی کو مستحکم کرنے میں جس چیز نے سب سے زیادہ کام دکھایا ہے وہ سود کا استحصالی نظام ہے۔ گویا صورتحال کچھ یوں بنی کہ سودی نظام سے بینک مستحکم اور معاشرہ کمزور ہوا، غریب پِس گیا، پِسے ہوئے غریبوں میں سے ڈاکوؤں کا طبقہ نکلا جس نے ڈاکے مار کر گزر اوقات کرنے کی کوشش کی۔ اُدھر سودی نظام مستحکم ہوئے اور بینکوں میں اضافہ ہوتا گیا، اِدھر بے روزگار جتّھوں سے نتھرنے والی ڈاکوؤں کی پلٹن بڑھتی گئی اور اسی حساب سے معاشرے میں عدم سلامتی پھیلتی گئی۔

البتہ یہ ضرور ہے (ممکن ہے آپ کے تجربے میں بھی یہ بات آئی ہو) کہ صرف حلال مال (اور وہ جس کی زکوٰۃ ادا کی جاتی رہی ہو گی) ڈاکوؤں کی دسترس سے باہر رہتا ہے۔  باقی ہر طرح کا مال و زر ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور کبھی واپس نہیں ملتا۔

بینک اور ڈاکو کے تعلق میں ایک اور پہلو اہم ہے۔ کسی سیانے نے کہہ رکھا ہے: چھوٹا ڈاکو ایک بینک لُوٹتا ہے،  بڑا ڈاکو عوام کو لُوٹنے ایک کے لیے بینک کھولتا ہے۔

قائم ہونے والا ہر نیا بینک ڈاکوؤں کی نئی پود کو جنم دیتا ہے، ڈکیتیوں  کی ایک نئی سیریز کچھ محروموں کو تھوڑے وقت کے لیے خوشحال کر دیتی ہے، تاہم اگلی سیریز یا اس سے اگلی سیریز ڈاکوؤں کے خاتمے پر منتج ہو جاتی ہے۔ تب تک کئی نئے بینک کھل چکے ہوتے ہیں اور ڈاکوؤں کی بھی نئی پود سرگرم عمل ہو چکی ہوتی ہے۔ ڈکیتیوں سے بچنے کے لیے، خاندانی رئیس ہوں یا نو دولتیے، سب اپنی اپنی رقوم بینکوں میں رکھوا چکے ہوتے ہیں، ان رقوم کو سرمایہ کاری میں استعمال کر کے بینک اپنا منافع بڑھا چڑھا چکے ہوتے ہیں۔ بینکوں کے کاروبار، ڈکیتیوں، اور خوف کا ماحول تینوں کے بڑھنے چڑھنے میں راست تناسب پایا جاتا ہے۔

*****

حصہ
تحریر و تصنیف کے شعبے میں اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عامل صحافی تھے، فی الحال مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ایم اے ابلاغ عامہ اردو کالج کراچی سے ۱۹۹۸ء میں کرنے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی، جس کا تعلیم پر کوئی برا اثر نہیں پڑا، البتہ نئی نسلوں کو عبرت ملی کہ تعلیم چھوڑ دینے کا کیا نقصان ہوا کرتا ہے۔ اردو اور انگریزی فکشن سے دلچسپی ہے، اردو میں طنز و مزاح سے۔

جواب چھوڑ دیں