ٹائیگر فورس نہیں اداروں سے کام لیجیے

378

راشد منان
الحمدللہ راقم اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ محدود پیمانہ پر ایک چھوٹی سماجی تنظیم کا بانی و سرپرست ہے جو نادار اور ضرورت مند بچوں کی فلاح بہبود کا کام کرتی ہے اور اس کے علاوہ بھی پورے سال دیگر ہنگامی نوعیت کی سماجی خدمت بھی کورونا وائرس کی موذی وباء جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس وباء کے ممکنہ پھیلائو کو روکنے کے نتیجے میں کی جانے والی بندشوں نے امیر و غریب دونوں کا امتیاز ختم کر دیا ہے اور دونوں طبقہ ہی اس کے متاثرین میں شامل ہیں۔
ہماری ملکی آبادی چار طبقات پر مشتمل ہے جن میں سب سے اونچی فیوڈل کلاس جبکہ بالکل آخری عام اور غریب طبقے کی ہے اور میں سمجھتا نہیں بلکہ اپنے تجربے کی بنیاد پر انتہائی اور دست بستہ معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ان دونوں کے لیے اپنی کلاس میں رہتے ہوئے کھانا کمانا کوئی مشکل کام نہیں امراء جائز اور ناجائز کی پروا کیے بغیر اپنے مال و اسباب میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں جس کی بالکل تازہ مثال ریاست مدینہ کے خود ساختہ خلیفہ کے دائیں بائیں موجود شخصیات ہیں جن کو اب واضح طور پر چینی اور آٹا چور کے نام سے جانا اور پکارا جا رہا ہے جبکہ غریب طبقہ اگر کچھ نہ بن پڑے تو اپنے ملنے جلنے اور پاس پڑوس سے مانگ تانگ کر اپنا اور اپنے بچوں کا شکم سیر کر لیتا ہے یہ طبقہ ان دہاڑی دار مزدوروں اور گھروں پر کام کرنے والی قابل تکریم جوان اور بوڑھی عورتوں کا ہے جنہیں عام الفاظ میں ماسیوں کے نام سے جانا جاتا ہے جو مجبوری کے حالات میں گھروں سے باہر نکلتی ہیں اور بہت ساری کمینہ اور غلیظ نظر اور سوچ کے حامل افراد اور گھرانوں کے فرش اور لباس کی صفائی ودھلائی کرتی ہیں اور جب بچی عزت کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں تو اپنے روتے لخت جگروں بوڑھے والدین کی خدمت اور اپنے نشئی اور نکھٹو شوہر کی ڈانٹ ڈپٹ اور اکثر و بیش تر ان کے ہاتھوں کا طمانچہ بھی اپنے چہروں کی زینت بنائے اپنی زندگی کو کوسنے اور اپنے ربّ سے اس ستم ظریفی پر شاکی رہتی ہیں مگر ان کی غذا اور خوراک کا بندوبست ہو جاتا ہے اور یہ بیچارے کسی نہ کسی سے کچھ نہ کچھ حاصل وصول کر لیتے ہیں۔
ہمارے ملک کا تیسرا اور چوتھا طبقہ وہ ہے جسے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے نام سے جانا جاتا ہے اس طبقہ میں ہر وہ فرد شامل ہے جو مذکورہ دونوں کلاس میں فٹ نہیں بیٹھتا مثلاً نجی اور سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے کلرک حضرات مختلف اداروں کے فیلڈ ورکرز اسکول ٹیچرز طب اور صحت کارخانے اور ملوں میں اوسط مشاہروں پر کام کرنے والا عملہ اور آج کل کے تہذیب یافتہ معاشرے میں گرم اور سرد راتوں کی پروا کیے بغیر نو دولتی طبقات کہ بگڑے بچے بچیوں اور چٹخارے دار کھانے کے شوقین مرد و خواتین کو ان کے آرڈر گھروں پر پہنچانے والے نوجوان اور عمر رسیدہ افراد کریم اور اوبر چلانے والے تعلیم یافتہ افراد اور اس طرح کہ دیگر لوگ ان کی مجبوری یہ ہے کہ یہ نہ تو کرپشن کرکے وزیراعظم کے دائیں اور بائیں بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنا دکھ بیان کرکے کسی سے کچھ حاصل کرسکتے ہیں یہ وہ سفید پوش ہیں جن کے بھوکے پیٹ اور خشک زبانیں کسی کو کچھ ظاہر بھی نہیں کرتے اور جن کے لیے قرآن پاک میں مسکین کا لفظ پوری تشریح کے ساتھ ارشاد ہوا (البقرۃ: 273) اور بقول شاعر:
پتھر ابالتی رہی ایک ماں تمام رات
بچے فریب کھا کہ چٹائی پر سو گئے
ایک دکھ بھری داستان اس کلاس کی ہے ان کی زندگی کا ہر لمحہ کرب واذیت بھرا ہے تمام افسانوں ڈراموں اور فلموں کے یہ مرکزی کردار ہوتے ہیں مسئلہ ان کا ایک ہی ہے مر جائیںگے لیکن چرچا نہ کریںگے۔
کورونا وائرس کی بندشوں نے روایات کہ عین مطابق مشکل کی اس گھڑی میں ہر کس و ناکس کو خدمت خلق کے میدان میں دھکیل دیا اور فرد ہو کہ جماعت سیاسی سماجی مذہبی تنظیمیں امداد باہمی کی انجمنیں خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی خیر خواہی کے کام میں آگے ہی آگے ہیں کوئی اس موذی وائرس کو روکنے کے لیے جراثیم کش ادویات کا اسپرے کرا رہا ہے تو کوئی کسی ضرورت مند کی دہلیز پر پکے ہوئے کھانے یا راشن کا بیگ تھامے کھڑا ہے مگر نئے اور نا تجربہ لوگوں کی مدد اصل مستحقین تک نہیں پہنچ رہی کیونکہ کچھ مخیر حضرات اور چھوٹی تنظیمیں اپنی استطاعت کے مطابق سامان لیکر نکلتی ہیں کسی گلی محلے کے نکڑ یا چوک پر کھڑی ہو جاتی ہیں جہاں لوگوں کا ایک مجمع جمع ہو جاتا ہے اور دھکم پیل کی اس کیفیت میں مضبوط توانا اور شاطر لوگ دو دو چار چار تھیلیاں اچک لے جاتے ہیں جبکہ بوڑھے کمزور اور ضرورت مند خواتین مایوسی لیے اپنی راہ لگ جاتی ہیں تقسیم کا اس طریقہ کار میں اکثر ریا کاری اور دکھاوا شامل ہوتا ہے ان کی نیت پر اگر شک نہ کیا جائے تو بھی ایسے تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی محدود امداد حکم کے عین مطابق پہلے اپنے اقربا اور پھر اپنے پڑوس کے چاروں اطراف چالیس گھرانوں تک پہنچائیں اور وقتی جوش کے بجائے اس کام کو مستقل اپنا طریقہ بنائیں اور خصوصاً کورونا کی موذی وباء کے جس کا دورانیہ کسی کو بھی نہیں معلوم آئندہ تین چار ماہ تک انہیں لوگوں تک محدود رکھیں تو بہتر ہوگا بجائے اس کے ایک ہی وقت میں ساری امداد مستحقین تک پہنچا کر یہ سمجھاجائے کہ فریضہ مکمل ہوگیا۔ ہنگامی مدد کے اس جذبے سے ایک طرف اشیاء صرف مہنگی اور دوسری طرف خاکم بدہن جلد یا بدیران کی قلت و قحط کا اندیشہ قوی ہے خلیفہ وقت کی اس بات پر اطمینان نہ کر لیا جائے کہ ملک میں غذائی اجناس کی کوئی کمی نہیں۔
دوسری اہم بات جس کا ذکر گزشتہ کالم میں ہوچکا ہے کہ ہمارے ملک میں ہنگامی حالات کے موقع پر ضرورت مند افراد تک پہنچنے کے لیے سرے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں حکومت کو اس ڈیٹا کے مرتب کرنے کے لیے بجلی اور گیس بلوں سے مدد لینے کی تجویز بھی دی جاچکی ہے۔ سرکار کی ذمے داری ہے کہ وہ پندرہ ہزار سے کم آمدنی والے سرکاری و نجی ملازمین اور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والوں کا ڈیٹا اپنے پاس مرتب رکھے اس کے لیے وہ ان ووٹر لسٹ کا سہارا بھی لے سکتے ہیں کہ جن کے ذریعے وہ کسی بھی انتخاب میں کامیابی حاصل کرتے ہیں آخر اس وقت انہیں کس طرح خبر ہوتی ہے کہ کون سا ووٹر کہاں رہتا؟ کیا کرتا؟ اس کی ذات برادری کیا ہے؟ اور اس کے توسط سے اسے کتنے ووٹ مل سکتے ہیں؟ کرسی کے حصول کے لیے کی جانے والی کاوش کامیابی ملنے کہ بعد تو زیادہ احسن طریقہ سے سر انجام دی جاسکتیں ہیں… خدارا سوچیے!