ایمان، اتحاد اور تنظیم… وقت کی ضرورت

1864

سید عتیق الرحمن
دنیا میں کوئی بھی قوم تین بنیادی اصولوں کو اپنائے بغیر ترقی نہیں کرسکتی، پاکستان کی بنیاد رکھنے والے محمدعلی جناح نے بھی اہل پاکستان کے لیے ہمیشہ کامیابیوں کی نوید تین زریں اصولوں کو اپنانے پر متعین کردی۔ پہلا اصول ایمان، دوسرا اتحاد اور تیسرا تنظیم ہے۔ عہد رسالت مآب ؐ سے لیکر آج تک جہاں جہاں معرکہ آرائی ہوئی یا کسی بھی آسمانی و زمینی آفت و مصیبت سے امت دوچار ہوئی تو انہی اصولوں کو اپناکر ہم کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے نقصان ہمیشہ برعکس حالات میں ہوا، اب سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ان تین چیزوں کو اپنانا ہے؟ ہماری پہلی اور بنیادی چیز ایمان ہے اس کا تقرر اس طرح سے کریں کہ ہمارے دل کو یہ یقینِ کامل ہر وقت رہے کہ یہ ’’وبا‘‘ ہمارے اللہ کی جانب سے ہے وہی کارسازِ حقیقی ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ کون سا کام، کون سی چیز، کس لمحہ، کتنی ضروری ہے۔ ہم کو اپنے دماغ میں اٹھنے والے اوہام کو بھی یہ اجازت نہیں دینی کہ وہ ہم پر مسلّط ہو کر ہم سے ہمارا عقیدہ، اعتقاد اور توکل چھین سکیں۔ اب ہم کو سنت رسول ؐ کا احیا کرنا ہے۔ طہارت، پاکیزگی اور روزمرہ زندگی کے معمولات میں میل جول کو بھی عین سنت کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔ نبی رحمتؐ کسی مصیبت یا مشکل میں دو نوافل ادا فرماتے اور اس کی تلقین فرماتے۔ اس وقت پوری امت مسلمہ اس طریقہ کار کو اپنا کر نجات کی سند حاصل کرسکتی ہے۔ دوسرا اہم ترین اصول اتحاد ہے، جس میں برکتوں کے خزینے چھپے ہیں۔ اتحادکی طاقت قوموں کو زوال سے نکالنے اور بام عروج تک پہنچانے میں لازم حیثیت رکھتی ہے۔ کوئی بھی منزل، کوئی بھی کامیابی اس کے بغیر ممکن نہیں۔
تاریخ میں دیکھا جائے تو جب بھی مشکل وقت میں اعلان کیا گیا تو امت مسلمہ کا ایک ایک فرد اسلام اور اپنی بقا کی خاطر اپنا مال لیکر حاضر ہوجائے تو تاریخ کے صفحات چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ ہر فرد اپنا تن، من، دھن سب کچھ لیکر حاضر ہوجاتا۔ مہاجرین اور انصار کی خوشگوار اور مضبوط مثال ہر عام و خاص کے سامنے ہے۔ پاکستان کی بات کیجیے تو عمران خان نے شوکت خانم اسپتال بنانے کے لیے جھولی پھیلائی تو مائوں نے زیورات تک دے دیے اور یہ سلسلہ صرف شوکت خانم تک ہی نہ رہا، جب بھی کسی نے پکارا قوم نے اخوت کی مثال قائم کی، عبدالستار ایدھی کی ایدھی فائونڈیشن سے لے کر مسلم ہینڈز تک اور اس طرح کی سیکڑوں تنظیمیں اس قوم کے جذبہ مواخات پر چل رہی ہیں۔ قرض اتارو مہم ہو یا ڈیم بنائو مہم سبھی نے دل کھول کر اپنے حصے کا مال قربان کیا۔ اسی طرح آج بھی اتحاد کی اسی دولت کو اپنائے رکھنے اور مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم کو یہ بات ثابت کرنی ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا احیاء اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔ ہم کو بتانا ہے کہ ہمارا اس قرآن سے کیا رشتہ ہے جو ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ: ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ مت پھیلائو‘‘۔ ہمیں انتشار سے نکل کر، مختلف قسم کے پارٹی نظام سے بالاتر ہوکر قائداعظم کے وطن کے لیے متحد ہونا ہے ہمیں ایک پرچم تلے، ایک ایسی خوشگوار فضا قائم کرنی ہے جو پوری دنیا میں ایک بار پھر ہمارا یہ پیغام پہنچا سکے، یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم وقت بے وقت اذان دینے کی وجہ دریافت کرنے کے بجائے ملکر ’’اللہ اکبر‘‘ ’’اللہ اکبر‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے صرف اپنے ملک و ملت کے لیے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے پیامِ امن لیکر ابھریں، تیسری اہم چیز ہے تنظیم، یعنی کہ نظم و ضبط اور ایک ڈسپلن تشکیل دینا یہ چیز بھی ملک و ملت کر ترقی اس کی فلاح اور درپیش مسائل میں اہم کردار اداکرتی ہے۔
آج کل جن حالات کا ہمیں سامنا ہے اس میں جو نظام بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ملک سے باہر نہیں جاسکتے، گھروں میں قیام کرنے کو ترجیح دیں، بہت زیادہ ہجوم کرنے سے پرہیز کریں، غیر ضروری ملاقاتیں ملتوی کردیں، اسکول، کالجز، اور ایسی بہت سی ہجوم کا باعث بننے والی جگہوں کو مقفل کریں، یہ تمام چیزیں بہت ضروری ہیں۔ اس وقت اللہ سے دوری، غفلت اور ناچاقی یہ سب چیزیں ملکر ہمارا شکار کر رہی ہیں ایسے شکاری کو مات دینے کے لیے، اتحاد، ایمان اور تنظیم کا سبق دہرا کر ہمیں فتحیاب ہونا ہے، مزید یہ کہ حالات اللہ کے کرم سے قابو میں آنے کی پوری امید ہے اور یہ خوف بھی لاحق ہے کہ نجانے کب تک اس صورتحال سے دوچار ہونا پڑے کیونکہ ایمان، ’’خوف‘‘ اور ’’امید‘‘ کے درمیان ہے اس لیے ان دونوں چیزوں سے مفر، مکر نہیں، پیغام یہ کہ اپنے آپ کو امید کے ساتھ ساتھ مزید ایسے حالات کے لیے تیار رکھیے اور ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ان تین چیزوں کو لازم اپنائیے۔ اپنی جان سے، اپنے مال سے، اپنی دعا سے، اور اپنی نیک تمنائوں سے اس ملک و ملت کی مدد اور حفاظت کا وقت ہے۔