مہنگی چینی : اسکینڈل میں پی ٹی آئی وحکومتی رہنما ملوث نکلے

712

اسلام آباد(نمائندہ جسارت،خبر ایجنسیاں) چینی، آٹا بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آگئی۔اسکینڈل میں پی ٹی آئی اور حکومتی رہنما ملوث نکلے۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں ملک میں پیدا ہونے والے آٹے اور چینی کے بحران کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر آگئی۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق چینی بحران میں سیاسی خاندانوں نے خوب مال بنایا اور جہانگیر ترین اور خسروبختیار کے بھائی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی اہم وجہ رہی۔وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے کس کے دباؤ میں آکر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایکسپورٹ کی اجازت کیوں دی؟۔ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں میں کئی نامور سیاسی خاندانوں کے نام شامل ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کے بحران میں سب سے زیادہ فائدہ حکومتی جماعت تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، اور انہوں نے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کمائے جب کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی نے آٹا و چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے۔چودھری منیر رحیم یارخان ملز، اتحاد ملز ٹو اسٹار انڈسٹری گروپ میں حصہ دار ہیں۔ اس بحران میں مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے غلام دستگیر لک کی ملز کو 14 کروڑ کا فائدہ پہنچا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کی برآمد سے ملک میں قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ چینی برآمد کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا، چینی برآمد کرنے والوں نے دو طرح سے پیسے بنائے۔ چینی پر سبسڈی کی مد میں رقم بھی وصول کی اور قیمت بڑھنے کا بھی فائدہ اٹھایا گیا۔رپورٹ کے مطابق شوگر ایڈوائزری بورڈ وقت پر فیصلے کرنے میں ناکام رہا، دسمبر 2018ء سے جون 2019ء تک چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ اسٹاک اور ضرورت تقریبا! برابر ہے، تھوڑا سا فرق ذخیرہ اندوزوں کو قیمتیں بڑھانے کا موقع فراہم کرے گا۔ حکومت اس معمولی فرق بھی ختم کرنے کے لیے چینی درآمد کرنے کی اجازت دے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی ناہلی آٹا بحران کی اہم وجہ بنی۔ایم ڈی پاسکو کی گندم خریداری کی رپورٹ درست نہیں تھی۔وزارت فوڈ سکیورٹی نے ای سی سی کو غلط اعدادوشمارپرگندم برآمد کرنے کا مشورہ دیا۔2019ء میں گندم کی پیداوار کا غلط اندازہ لگایا گیا۔ جبکہ مالی سال 2019-20ء میں ایک لاکھ 63 ہزار ٹن گندم برآمد کی گئی۔ گندم کی برآمد اور برآمد میں تاخیر کی وجہ سے بے چینی پھیلی۔ بے چینی کی وجہ سے لوگوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔گندم کی برآمد پرپابندی نومبر کی بجائے جون 2019ء میں لگنی چاہیے تھی۔ پنجاب حکومت 20سے 22 دن کی تاخیر سے گندم کی خریداری کی۔ سندھ حکومت کے گندم اسٹاک میں بڑے پیمانے پر چوری ہوئی۔ گندم خریداری نہ کرنے پر ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گندم کی خریداری کا آڈٹ کیا جائے۔دوسری جانب جہانگیر ترین نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق میں نے 12 فیصد چینی ایکسپورٹ کی جبکہ میرا مارکیٹ شیئر 20 فیصد ہے۔ رپورٹ میں واضح ہے کہ میں نے اپنے حصے سے بھی کم چینی ایکسپورٹ کی۔جہانگیر ترین نے مزید کہا کہ میری ملز کو ملنے والی 3 ارب روپے سبسڈی میں سے ڈھائی ارب روپے تب ملے جب حکومت (ن) لیگ کی تھی اور میں اپوزیشن میں تھا۔رپورٹ پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے اپنے ردعمل میں کہا کہ آٹا اورچینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ نہیں دیکھی۔یقین ہے کوئی بھی صورتحال ہوا، عمران خان انصاف کریں گے۔ اسد عمر نے کہا کہ عمران خان نے انکوائری کمیٹی بنائی اور اس کی اب رپورٹ بھی آگئی ہے۔ یہ رپورٹ فروری میں آنی تھی لیکن اس میں کچھ سوالات نہیں ہوئے تھے، اس لیے رپورٹ لیٹ ہوئی، لیکن آٹے اور چینی کے رپورٹ پر کمیشن بنا دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں دوتین وجوہات کی بناء پر عمران خان کی جماعت کو جوائن کیا تھاایک وجہ یہ تھی کہ اس کی جماعت کا نام ہی انصاف نہیں بلکہ وہ انصاف کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔خیال رہے کہ جہانگیر خان ترین تحریک انصاف کے اہم رہنما سمجھے جاتے ہیں جبکہ خسرو بختیار وفاقی کابینہ میں شامل ہیں اور ان کے پاس وزارت تحفظ خوراک اور تحقیق کا قلمدان ہے۔ خسروبختیار کے ایک بھائی مخدوم ہاشم جواں بخت پنجاب کابینہ میں شامل ہیں اور صوبائی وزیر خزانہ ہیں۔واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی وفاقی وزیر اور حکومتی جماعت کے رہنما پر بحران کی ذمہ داری کا الزام لگاچکی ہیں۔جنوری اور فروری میں ملک بھر میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بحران پر قابو پانے کے لیے 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ درآمد شدہ گندم آتے آتے مقامی سطح پر گندم کی فصل تیار ہوجائے گی اور پھر گندم کی زیادتی کی وجہ سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے بھی آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔اس حوالے سے وزیراعظم نے بحران کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی اور وزراء کو بحران کی وجوہات جاننے کا ٹاسک سونپا تھا۔ علاوہ ازیںوزیراعظم عمران خان کی طرف سے ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں تشکیل دی گئی دو انکوائری کمیٹیوں نے گندم اور آٹے کے بحران اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کا جائزہ لیا۔ دونوں کمیٹیوں کی انکوائری رپورٹس منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وزیر اعظم نے چینی کے معاملہ پر تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے فرانزک تجزیہ کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے دونوں کمیٹیوں کی رپورٹس اور اضافی سوالات کے جوابات عوام کے لیے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کی سربراہی میں دو اعلی سطحی کمیٹیاں تشکیل دی تھیں جو انٹلیجنس بیورو کے ایک سینئر افسر اور ڈی جی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب پر مشتمل تھیں۔ مذکورہ کمیٹیاں تشکیل دینے کے بعد وزیر اعظم بارہااس عزم کا اظہار کر چکے ہیںکہ چینی اور گندم کے بحران کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرکے ان کو سزا دی جائے گی تاکہ اس طرح کی مزیدکارروائیوں سے بچا جا سکے۔ پاکستان تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان شفافیت اور احتساب کو جمہوریت کا بنیادی اصول اور گڈ گو رننس کا خاصا سمجھتے ہیں اس لیے وزیراعظم عمران خان نے دونوں کمیٹیوں کی رپورٹس اور اضافی سوالات کے جوابات عوام کے لیے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے تحقیقاتی دائرہ کار کو وفاقی کابینہ نے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا اور انکوائری کمیشن ایکٹ 2017ء کے تحت انکوائری کمیشن کا درجہ دے دیا گیا تھا جوکمیشن فائنڈنگ فرانزک کا تجزیہ کررہا ہے ۔ کمیشن 25 اپریل تک اپنا کام مکمل کرلے گا جو کہ عوام کے لیے جاری کردی جائیں گی۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمداور اس ضمن میں دیگر ضروری اقدامات کرے گی ۔