حج: خدشات اور گزارشات

626

وقاص احمد
کورونا وائرس کے حوالے سے حالات واقعات جس طرف تیزی سے قدم بڑھا رہے ہیں اور سعودی حکومت جس طرح ملکوں بشمول پاکستان کو حج کے حوالے سے معاہدے کرنے سے منع کر رہی ہے اس سے یہی اندازہ ہورہا کہ معاملات انتہائی تکلیف دہ اور دل سوز رخ اختیار کر رہے ہیں جس میں۴۴۱اھ کا حج شاید خاکم بدہن اب اس گہما گہمی اور فرزندانِ توحید کے فقید المثال اجتماع کی صورت میں نہ ہوسکے۔
انسانی نفس اور دماغ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ مستقبل میں وقوع پزیر ہونے والے واقعات، ان سے جڑے خدشات اور ان کے نتائج کو اپنے خیال وگمان کی دنیا میں آڈیو ویڈیو فلم کی طرح چلا سکتا ہے، ان پر غور وفکر کرسکتا ہے۔ پھر اچھے نتائج کی طلب و محبت انسان کو اسے حاصل کرنے اور اس کی جانب سفر کرنے پر مجبور کرتی ہے، اس کے لیے منصوبہ بندی اور اقدامات کا شوق و جذبہ دلاتی ہے۔ اس کے برعکس نتائج اگر نقصان دہ اور خوفناک ہوں تو انسان کی تدبیریں ان برے نتائج سے بچائو کے اقدامات اور ان کے سدباب کے لیے ہوتی ہیں۔ سارا مسئلہ مستقبل کے حوالے سے یقین کی مقدار و معیار کا ہوتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ’’تم اصل میں دنیا کی زندگی کو (اس کے یقینی نتائج کی وجہ سے) بہت اہمیت دیتے ہو جبکہ آخرت اصل خیر اور باقی رہنے والی ہے‘‘۔ ہمارے ہاں دعوت وتبلیغ سے منسلک دوست و احباب یہی تو بار بار کہتے رہتے ہیں کہ دنیا کی خوشی اور غم کی حیثیت آخرت کی خوشی اور غم کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ مسئلہ یقین ہی کا ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے مستقبل میں پیدا ہونے والے حالات و واقعات کی وجہ سے مسلمانوں کی غالب اکثریت سخت پریشانی اور بے چینی کی کیفیت میں ہے۔ شدید خدشہ ہے کہ آنے والے حج کا اجتماع خوف اور احتیاطی تدابیر کی مجبوری کی وجہ سے انتہائی چھوٹا اور صرف سعودی شہریوں کے لیے ہو۔ منیٰ کا میدان خاکم بدہن تقریباً خالی پڑا ہوگا، عرفات کے میدان میں چند ہزار مقامی لوگ ہوں گے، مطاف خدا ناخواستہ وہی منظر پیش کر رہا ہوگا جیسا کہ آج کل نظر آرہا ہے۔ کوئی نہیں ہوگا جو ملتزم سے چمٹ کر اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگے۔ حجر اسود کا بوسہ لے۔ یہ لکھتے ہوئے ہاتھ کپکپا رہے ہیں، آنکھیں نم ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ دل و دماغ ان خیالات کے حقیقت میں وقوع پزیر ہو جانے سے انکار کر رہا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے، عمرے اور دنیا بھر میں نمازِ باجماعت پر پابندی اب ہر نوع کے خدشات کو تقویت بخش رہے ہیں۔
انسان جس چیز کو جتنی اہمیت دیتا ہے اُس کے لیے اُتنی ہی تگ و دو بھی کرتا ہے۔ ایک خاص سطح تک مالی تو کیا جانی خطرات بھی مول لیتا ہے۔ کراچی میں جب دہشت گردی عروج پر تھی، روزانہ بیس پچیس لاشیں گرتی تھیں تب شاید ہی کسی نے اس وجہ سے نوکری سے استعفا دیا ہو کہ وہ خطرات کی وجہ سے گھر سے نہیں نکل سکتا۔ سب احتیاط اور تدابیر اختیار کرتے ہوئے آتے جاتے رہے۔ کاروبار زندگی چلتا ر ہا کیونکہ دنیا کے نتائج، اس کی خوشیاں اور پریشانیاں سب فوراً سا منے آجاتی ہیں، حواس خمسہ سے محسوس ہوتی ہیں۔ ملک بھر میں جب امام بارگاہوں اور مساجد پر دہشت گرد حملے ہوتے تھے تو حفاظتی اقدامات اور مورچہ بند اہلکاروں کے ساتھ جمعہ کے اجتماعات اور عام نمازیں الحمدللہ ہوتی رہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال سڑکوں پر حادثات کے نتیجے میں تیرہ چودہ لاکھ لوگ جاں بحق ہوتے ہیں۔ لیکن سڑکوںپر بذریعہ کار، بس، وین، ٹرک سفر میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہاں حفاظتی اقدامات میں، ہدایات میں بھرپور اضافہ کیا جاتا رہا۔ لیکن انسانوں کے سفر بند کرنے پر کوئی سوچتا بھی نہیں کیونکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا انسان کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس طرح حج کی انتہائی اہمیت اور اس کے نہ صرف تمام مسلمانوں بلکہ پورے عالم انسانیت پرروحانی اثرات کے پیش نظر فریضہ حج کو صورتحال کے مطابق بہترین طرز پر سر انجام دینے کے لیے بھی غیر معمولی اقدامات اور تدابیر ہونی چاہیے۔ حج کی عظیم الشان عبادت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کی خاطر ایمان و یقین کی دولت کو بھی ٹٹولہ جائے اور محض زبانی جمع خرچ کے بجائے عملاً اس دولت کو بروئے کار لایا جائے۔
کورونا وائرس چونکہ ایک الگ نوعیت کا دشمن ہے اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے اس وائرس کے بارے میں اب تک کی دستیاب معلومات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ وائرس اْس شخص کی چھینک اور کھانسی سے پھیلتا ہے جس کے جسم کے اندر کورونا وائرس داخل ہوچکا ہو۔ جن لوگوں کے اندر کورونا وائرس ہو ان میں سے بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو قطعاً بیمار نظر نہیں آتے۔ نہ بخار، نہ کھانسی نہ گلے میں درد، کچھ نہیں۔ ان لوگوں کی چھینک یا اتقاقی کھانسی یا ناک صاف کرنے کے بعدہاتھ ملانے سے دوسرے لوگوں میں بھی کورونا وائرس جا سکتا ہے۔ البتہ یہ وائرس ان لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے جو عمر رسیدہ ہوں، یا وہ لوگ جو پہلے سے کسی بڑی بیماری کا شکار ہوں یا کسی بھی وجہ سے کسی شخص کا جسمانی مدافعتی نظام کمزور ہو۔ ڈاکٹرز کی جانب سے ہر کسی کو ہر کسی سے چھ فٹ دور رہنے کی ہدایت اگر دی جارہی ہے تو وہ اس لیے کہ جس شخص کے جسم میں کورونا وائرس ہو اس کی کھانسی، چھینک یا تھوک آپ کو نہ لگ جائے جو بعد میں کسی طریقے سے منہ، ناک، آنکھ کے ذریعے آپ کے جسم میں داخل ہوجائے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا سے زیادہ بیمار ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد ہورہے ہیں اور اموات 99 فی صد ان لوگوں کی ہورہی جو پہلے سے تین یا تین سے زیادہ یا دو یا کسی ایک جان لیوا مرض کا پہلے سے شکار ہوں۔ اٹلی کے اعداد وشمار آپ کسی بھی قابلِ اعتماد ویب سائٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
وائرس کے بارے میں اوپر بتائے گئے حقائق اور حج کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر اگر اس سال حج میں حاجیوں کی تعداد گزشتہ سال کی نسبت آدھی یعنی تقریباً دس گیارہ لاکھ کردی جائے او ر ہر ملک کا کوٹا اسی لحاظ سے نصف کردیا جائے۔ اور پھر اس کے بعد یہ طے کرلیا جائے کہ اس سال حج کے لیے اہل وہی لوگ ہوںگے جن کی عمریں پچیس سے پچاس سال کے درمیان ہوں۔ انہیں کوئی دائمی سنجیدہ عارضہ لاحق نہ ہو۔ اس کے بعد ہر ملک خصوصی اقدامات کرتے ہوئے ان لوگوں کا کورونا ٹیسٹ روانگی سے دو تین دن پہلے کرلے اور حاجیوں کو تنبیہ کی جائے کہ اس درمیان اپنا بے انتہا خیال رکھیں۔ سعودی حکومت ایک ٹیسٹ ان حاجیوں کا سعودی عرب میں اترنے کے بعد بھی لے۔ ان کاموں جیسے ٹیسٹ کرنے اور ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کرنے میں اگر بہت وقت درکار ہو یا ممکنہ وسائل و سہولتیں دستیاب نہ ہوں تو حاجیوں کی تعداد مزید کم کی جاسکتی ہے۔ آٹھ نو لاکھ کا حج بھی مسلمانوں کا ایک بڑا اجتماع ہوگا جس میں ہر ملک کی نمائندگی ہوسکتی ہے۔ اور سعودی حکومت کو بیس لاکھ حاجیوں کے مقابلے میں انتظامات اور سہولتوں کی فراہمی میں کافی آسانی ہو جائے گی۔
راقم کی یہ عمومی گزارشات درد دل کے ساتھ صرف اس لیے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم زیادہ ایمان کی کمی اور بزدلی کا شکار ہوجائیں اور حکمت اور تدابیر کو اتنا بھی بروئے کار نہ لائیں جتنا ہم اپنی دنیا کمانے میں لاتے ہیں۔ اپنی جان و مال کو اتنا بھی آزمائش میں نہ ڈال پائیں جتنا ہم دنیا کے کاروبار حتیٰ کہ تفریحات کے لیے ڈال دیتے ہیں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر، سفری ہدایات، قواعد و ضوابط میں اپنے اپنے شعبوں کے ماہر لوگوں کی رائے سے بہت زبردست اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ عزیزیہ، حرم اور مدینہ میں قیام کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ممالک پورے پورے ملک کو لاک ڈاون کر سکتے ہیں اربوں ڈالر کے ریلیف پیکیج دے سکتے ہیں تو حاجیوں کی حفاظت کے لیے بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ نہ صرف حج کے انتظامات کرنے والوں کو بلکہ حاجیوں کو بھی اپنے ایمان حقیقی، توکل علی اللہ میں اضافہ کرتے ہوئے استقامت سے ہدایات پر عمل اور مشکلات پر صبر کرنا ہوگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ: سعید بن مسیّبؒ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کو آگ سے اتنا آزاد کرتا ہو جتنا عرفہ کے دن آزاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ قریب ہوتا ہے اور فرشتوں پر بندوں کا حال دیکھ کر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ کس ارادہ سے جمع ہوئے ہیں؟۔ (مسلم) ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ’’اللہ جل شانہ عرفہ کی شام اہل عرفات کی تعداد اور اس عظیم منظر کو فرشتوں کو دکھا کر ان سے بطور فخر بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ دیکھو! یہ میرے بندے پراگندہ بال اور گرد آلود چہرے لے کر یہاں حاضر ہوئے ہیں تم گواہ رہو کہ میں نے ان کے تمام گناہوں کو بخش دیا اور اسی طرح ان گناہوں کو بھی بخش دیا جن کی یہ سفارش کر رہے ہیں‘‘۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اس مشکل وقت میں حکمت اور تدبر کے ساتھ ساتھ ہمت اور حقیقی ایمانی جذبے کے ساتھ فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ اس سال ان شاء اللہ جب یوم ِعرفہ، عرفات کے میدان میں حجاج کرام دعا کے لیے اللہ کے حضور ہاتھ اٹھائیں اور کہیں کہ اے اللہ ہم آگئے ہیں، اے اللہ ہم حاظر ہیں تو اللہ تبارک تعالیٰ اپنے حبیبؐ کی امت کو دنیا اور آخرت کی ہدایت، عافیت و مغفرت عطا کردے۔ آمین۔