ہمیں تم سے پیار ہے

930

ظفر عالم طلعت

۔27 مارچ 2020 کو شام کے 6 بجے ہیں۔ عوام اپنے مسیحاوں اور طبی عملے سے اظہار یک جہتی کرنے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے امڈ آئے ہیں۔ گھروں، عمارتوں، گاڑیوں اور ہاتھوں میں سفید جھنڈے لیے طبی عملے کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں اور سب مل کر گا رہے ہیں۔۔۔ ہمیں تم سے پیار ہے۔
طبی عملہ بھی پلے کارڈز لیے قوم کو یاد دلا رہا ہے کہ ہم آپ کے لیے اسپتال کے محاذ پر ایک نادیدہ دشمن سے لڑ رہے ہیں۔ ہم آپ کے لیے گھروں سے باہر ہیں۔ آپ ہمارے لیے گھروں میں رہیں۔پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا سب ہی اس مہم میں حکومت، طبی عملے اور اداروں کے ساتھ ہیں۔ ہماری قوم بس ایک دن مخصوص کرکے اسے ایک رسمی شکل دے کر منانے اور اس کے بعد لمبی تان کر سونے کی عادی ہے۔ اسی لیے ایسی مہمات بہت جلد دم توڑ دیتی ہیں اور اپنی افادیت کھودیتی ہیں جبکہ ضرورت ہے کہ مسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ اس جنگ کو جاری رکھیں جب تک کہ آخری اور حتمی کامیابی نہ ہوجائے۔۔۔
ہمیں چاہیے کہ اس نعرے کی حقیقت کو سمجھیں اور حقیقی معنوں میں اس کو عملی شکل دیں۔ صرف زبانی جمع خرچ۔ گانے بجانے اور سفید جھنڈے لہرانے سے کام نہی چلے گا۔ جب تک ہم بقول قائد اعظم اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کا عملی مظاہرہ نہ کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ہرطرح کے اختلافات کو بھلاکر بحیثیت انسان اور پاکستانی بن کر دوسرون کے کام آئیں۔ نہ صرف خود اپنے خاندان بلکہ اپنے معاشرے کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ اہم بات یہ ہے کہ اتحاد کے ساتھ ساتھ ہمیں تنظیم، نظم و ضبط اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ افرا تفری، ہڑبونگ اور خوفزدگی سے بچنا ہے۔ لوگوں کو امید دلانی ہے۔ حوصلہ بڑھانا ہے اور تمام احتیاطی تدابیر پر خود بھی عمل کرنا ہے اور دوسروں سے بھی کرانا ہے۔ اسی میں سب کی بقاء ہے۔
قرآن حکم دیتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور حکمران وقت کی اطاعت کریں۔ ایسے حالات میں جبکہ ہم ایک اسلامی ملک میں ہیں۔ اکثریت مسلمانوں کی ہے اور حکومت اور ادارے بھی مسلمان ہیں۔ سب کی بقاء اس میں ہے کہ مکمل اطاعت اور احتیاط ہم پر لازم ہے۔ یہاں تک کہ جو مسلمان غیر مسلم ملکوں میں رہتے ہیں۔ مثلاً امریکا اور یورپ وغیرہ ان پر بھی اطاعت لازم ہے کیونکہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔۔ اور لوگوں کی زندگیوں کا سوال ہے۔۔ جب کہ یہ احکامات قرآن وسنت اور شریعت کے مطابق ہیں۔
اب ہم لاک ڈاون کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں کہ جس سے لاکھوں گھرانے متاثر ہیں۔ اور دو وقت کی روٹی کے لیے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ گو کہ حکومت اور اس کے اداروں کے ساتھ ساتھ بہت سے نجی ادارے مثلاً الخدمت، ایدھی، سیلانی چھیپا وغیرہ بھی پیش پیش ہیں۔ لیکن معاملہ چونکہ بہت وسیع اور گمبھیر ہے۔ اس لیے ہر شخص کو آگے آنا ہوگا اور اس کار خیر میں حصہ لینا ہوگا۔ اور اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور اہل محلہ تک پہنچنا ہوگا تاکہ کوئی بھوکا نہ رہے۔ بلکہ دیگر ضروریات زندگی بھی پہنچانا لازم ہے تاکہ وہ سارے لوگ بھی کم سے کم معیار ضرورت کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ انہیں کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔ اس سلسلے میں سیلفیوں اور سوشل میڈیا پر پبلسٹی سے گریز کریں۔ ویسے بھی یہ موقع ہے کہ ہم اپنے گناہوں کا مداوا کرسکیں، صدقہ، خیرات، زکوۃ سب کچھ اس کام میں لگادیں۔ تاکہ تزکیہ نفس بھی ہو اور ہمارے مال و اعمال پاک ہوجائیں۔ جن لوگوں نے عمرے یا حج کا ارادہ کیا ہے۔ وہ اگر عمرے اور حج سے رہ جائیں تو کچھ نہ کچھ رقم مستحقین پر خرچ کریں۔ ان شاء اللہ گھر بیٹھے حج اور عمرے کا ثواب ملے گا۔ اور آئندہ سال ان شاء اللہ مزید آسانی ہوگی اور بہترین حج و عمرہ ہوگا۔ اس وقت افرادی قوت کی بہت ضرورت ہے۔ وہ سارے نوجوان جو بیس سے تیس سال کے درمیاں ہیں اور اللہ کے فضل سے صحت مند ہیں۔ وہ اپنے آپ کو متعلقہ اداروں کے حوالے کردیں بحیثیت رضاکار اور امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنے فارغ اوقات کو کار آمد بنائیں۔
ہمیں یاد ہے کہ 65 اور 71 کی جنگ میں سول ڈیفنس کی ٹریننگ لی تھی اور بحیثیت وارڈن سول ڈیفنس میں خدمات انجام دیں۔ اس نوعیت کے کاموں کے لیے ہمارے ہلال احمر، گرلز گائیڈ اور اسکائوٹس وغیرہ بھی میدان عمل میں آسکتے ہیں تاکہ جلد از جلد اس کار خیر کے لیے افرادی قوت میسر ہوسکے۔ ہمارے ڈاکٹرز، نرسیں، پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر متعلقہ افراد پہلے ہی میدان عمل میں ہیں۔۔۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے میڈیکل کے طلبہ و طالبات بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔ علماء اور خطبا حضرات بھی لوگوں کی رہنمائی کرسکتے ہیں اور اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ ہر طرح کا میڈیا بھی لوگوں کو ان مقاصد کی طرف بلاسکتا ہے۔ عوام کے سامنے حالات کی مثبت اور امید افزا تصویر پیش کریں۔ منفی پروپیگنڈے سے گریز کریں، لوگوں کو حوصلہ دین اور امید دلائیں۔ کیونکہ قومیں حوصلہ پہلے ہارتی ہیں اور جنگ بعد میں۔۔۔ ویسے بھی اللہ سے اچھی امید رکھیں۔ مایوس نہ ہوں، شیطان مایوس کرتا ہے جبکہ اللہ رحمن و رحیم ہے اللہ امید دلاتا ہے کہ اے میرے بندوں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور اس سے اچھا گمان رکھو۔ وہ تمہارے گمان کے مطابق عطا کرتا ہے۔ اس کالم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ان تمام این جی اوز کو بھی دعوت دیتا ہوں جو آج کل مشکل حالات میں غائب ہیں۔ موم بتی آنٹیوں کو بھی آگے آنا چاہیے۔ یہی وقت ہے کہ میرا جسم میری مرضی کے بجائے میرا سب کچھ میرے ربّ کی مرضی کے تابع کردیں تاکہ کفارہ ادا ہوجائے اور معافی مل جائے۔ آمین۔ ایک آخری اور اہم بات اللہ پر یقین اور توکل کو مضبوط کریں۔ اچھی امید رکھیں، مایوسی سے بچین، توبہ استغفار کو لازم پکڑیں، نوافل اور اذکار کا اہتمام کریں۔ اللہ کی طرف رجوع کریں۔ ان شاء اللہ ہمارا ربّ بہت جلد ہم سے راضی ہو جائے گا۔ کیونکہ وہ ستر مائوں سے زیادہ ہم سے پیار کرتا ہے اور بہت جلد یہ بلا ٹل جائے گی۔ ان شاء اللہ۔