جو رہی سو بے خبری رہی

976

یہ بہار کا موسم ہے۔ تمام رنگوں اور خوشبوئوں کے باوجود اداس۔ کراچی میں ابھی ابھی بارش ہوئی ہے۔ ہر چیز نکھر گئی ہے۔ ہماری گلی میں تارکول کی تازہ بنی ہوئی سڑک بھی دھل گئی ہے لیکن کوئی دیکھنے والا نہ لطف اٹھانے والا۔ ایک دو موٹر سائیکلیں چل رہی ہیں، آہستہ آہستہ، بند دکانوں کی طرف دیکھتی ہوئی، کسی چیز کی تلاش میں۔ ایک صاحب پانی کا خالی کین اٹھائے چل رہے ہیں۔ سامنے بلڈنگ کا نوجوان چو کیدار موبائل پر کسی سے باتیں کرررہا ہے۔ غالباً اپنی بیوی سے۔ کچھ ماہ پہلے ہی گائوں میں اس کی شادی ہوئی تھی۔ یہ آمنے سامنے بنے فلیٹوں کی طویل قطار کے بیچ سڑک ہے۔ ہر وقت موٹر سائیکلوں کے رش، آتے جاتے رکشوں اور لوگوں کی آمدو رفت کے باوجود بچے کرکٹ کھیلتے، سائیکلیں چلاتے اور لوگوں سے ڈانٹ کھاتے رہتے تھے لیکن آج دور تک بچے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ایک دیوانہ لڑکا جو موقع دیکھتے ہی چھوٹے سے کپڑے کو موٹر سائیکل کی ٹنکی میں ڈبوکر پٹرول میں تر کرکے سونگھتا تھا آج وہ بھی نظر نہیں آرہا۔ وہ رش اور بے ہنگم شور جو کراچی کی پہچان تھا کورونا کے سبب کہیں دور جا بسا ہے۔ وہ جو کہا جاتا تھا بارش، بادل، تم اور میں۔ سب ایک دوجے سے فاصلہ رکھنے پر مجبور ہیں۔ رم جھم بارش، نیلا آنچل، تم اور میں۔۔ ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے سینی ٹائز تلاش کررہے ہیں۔ کندھا تیرا اور سر میرا پاگل سی چپ، تم اور میں۔ اب کندھے ہیں، نہ سر نہ تم نہ میں بس ایک پاگل سی چپ۔
بہت دنوں کے بعد کراچی کو یوں خاموش دیکھا ہے۔ الطاف حسین کی جبری بندشوں کا زور ٹوٹنے کے بعد غالباً پہلا موقع ہے جب کراچی بند ہے۔ الطاف حسین بڑا عفریت تھا یا کورونا۔ یقینا الطاف حسین۔ کورونا تو چند ہفتوں مہینوں میں ختم ہوجائے گا لیکن الطاف حسین تو بیس تیس برس اس شہر میں لوگوں کی جانوں کے درپے رہا۔ کراچی میں کورونا کے سبب اب تک جتنی اموات ہوئی ہیں اتنی تو روزانہ کھجی گرائونڈ میں بوری بند لاشیں مل جاتی تھیں۔ بڑی مشکل سے کراچی نے الطاف حسین سے نجات حاصل کی تھی۔ اب پھر ویسے ہی دن ہیں۔ لوگ گھروں میں بند ہیں احتیاط کررہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو اب بھی احتیاط سے گریزاں ہیں۔ پولیس اور رینجرز سے ماریں کھا رہے ہیں، مرغے بن رہے ہیں پھر بھی باز آنے پر تیار نہیں۔ کراچی جہاں سب کے لیے روزگار تھا آج خالی ہاتھ سا محسوس ہورہا ہے جیسے اس کے پاس دینے کو کچھ بھی نہ ہو۔ نادار اور مفلس۔
کورونا نے وزیراعظم عمران خان کو مزید ایکسپوزکردیا ہے۔ اس وقت جب کہ قومی یکجہتی کی شدید ضرورت ہے ان کی خود پسندی، تکبر اور انا یک جائی کے لیے تیار نہیں۔ لازم تھا کہ وہ تمام جماعتوں، حریفوں اور سیاسی زعماء کے ساتھ بیٹھتے، ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرتے لیکن وہ اس آفت کے وقت بھی سب سے محاذ آرا ہیں۔ وہ کسی بھی شخصیت اور جماعت سے جھگڑے فراموش کرنے پر تیار نہیں۔ اپوزیشن تو دور کی بات ہے وہ صوبائی حکومتوں سے بھی ہم آہنگ نہیں۔ پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس کے موقع پر انہوں نے ویڈیو لنک خطاب کیا کہ کہیں اپوزیشن رہنمائوں سے خیر خیریت نہ پوچھنی پڑجائے۔ اس کے بعد اپنی بات کہہ کر چلے گئے۔ انہوں نے کسی رہنما کی بات سننا بھی گوارا نہیں کی۔ وہ اپوزیشن کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں اپوزیشن کو جیل میں ہونا چاہیے۔ شہباز شریف اور بلاول زرداری جو مشترکہ فیصلہ کرنے، سننے اور سنانے آئے تھے ان کے پاس واک آئوٹ کے سوا کوئی راستہ ہی انہوں نے نہیں چھوڑا۔
مردان اور اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو میں کورونا کے کیسز جس طرح سامنے آئے ہیں اس نے واضح کردیا ہے کہ کورونا کے علاج کے معاملے میں لاک ڈائون یا بندش ہی سب سے بہتر حل ہے۔ مردان میں سعودی عرب سے آنے والے ایک شخص کی وجہ سے یہ حالت ہے کہ 46افراد کے ٹیسٹ کرائے گئے تو ان میں سے 39افرادکے ٹیسٹ مثبت آئے۔ بارہ کہو میں بھی ایک فرد کی وجہ سے کرونا پھیلا تو پورے علاقے کو سیل کرنے ہی میں عافیت سمجھی گئی لیکن وزیراعظم بضد ہیں کہ ملک کو لاک ڈائون نہیں کریں گے۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ عملاً پورا ملک لاک ڈائون ہوچکا ہے۔ سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا، بلوچستان، گلگت بلتستان میں صوبائی حکومتوں نے لاک ڈائون کا اعلان کررکھا ہے اور اس پر عمل بھی ہورہا ہے۔ تاہم وہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا ان کے حکم کے بجائے میڈیا کے دبائو پر کیا جارہا ہے۔ اگر صوبے اتنے بڑے اقدام کے لیے ان سے مشاورت نہیں کررہے خصوصاً وہ تین صوبے جہاں ان کی حکومت ہے تو پھر ان کے وزیراعظم رہنے کا کیا جواز باقی رہتا۔ جب کہ سندھ کے علاوہ تمام صوبوں کے نمائندے صراحتاً کہہ چکے ہیں کہ لاک ڈائون کا فیصلہ وزیراعظم کی مشاورت سے کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود عوامی سطح پر لاک ڈائون کے معاملے میں وزیراعظم اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں۔ ان کی ضد انہیں اس بات کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ وزیراعظم کے اس موقف سے صورتحال یہ سامنے آرہی ہے کہ آفت کی اس گھڑی میں بھی ہماری وفاقی حکومت، صوبائی حکومتیں، اپوزیشن، فوج اور اداروں کے درمیان یکجہتی کا فقدان ہے۔ سب ایک صفحہ پر ہوں عملاً برسر زمین ایسی کوئی صورت موجود نہیں۔
وزیراعظم کی دلیل یہ ہے کہ لاک ڈائون کی صورت میں ٹرانسپورٹ کی بندش غریب عوام کے لیے بے پناہ مشکلات کا باعث ہوگی جن کے لیے پہلے ہی دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہے۔ وزیراعظم کو کوئی بتائے کہ تمام صوبوں نے لوگوں کی آمد ورفت پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اشیاء ضرورت کی ترسیل لاک ڈائون زدہ صوبوں میں جاری وساری ہے۔ کھانے پینے کے سامان کی ٹرانسپورٹیشن پر کہیں کوئی پابندی عائد نہیں۔ وزیراعظم نے اپنی دلیل کی تائید میں کراچی پورٹ کی مثال دی کہ وہ بند ہوگئی تھی جسے وفاقی حکومت کو کھلوانا پڑی۔ عمران خان بے خبری کے جس مقام پر ہیں یہ اس کی ایک مثال ہے۔ پہلی بات تو یہ پورٹ وفاقی حکومت کے دائرہ عمل میں آتی ہے نہ کہ صوبائی حکومت کے اور دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ اسی طرح انہوں نے لاک ڈائون کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں تیل کی عدم دستیابی کا ذکر کیا۔ ایسے کسی واقعے کا بھی کہیں وجود نہیں۔ وزیراعظم کی انا، ضد اور ہٹ دھرمی نے انہیں دیگر لوگوں ہی سے نہیں اپنے لوگوں سے بھی لاتعلق کردیا ہے وہ غیر منتخب لوگوں کے درمیان پھنس کررہ گئے ہیں جو ان کے مزاج کے مطابق دلائل وضع کررہے ہیں اور خبریں ان تک پہنچا رہے ہیں۔
آج پاکستان کا منظر نامہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ عمران خان کسی کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ چند افراد تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر کسی پر واضح نہیں۔ سندھ حکومت تو لگتا ہے ان کے نزدیک پاکستان کا حصہ ہی نہیں۔ اس کے لیے وہ کوئی کلمہ خیر کہنے کے لیے تیار نہیں۔ بقیہ تین صوبوں میں بھی جہاں ان کی حکومتیں ہیں ان کے ساتھ بھی مل کر وہ مشترکہ لائحہ عمل تیار نہیں کررہے، کوئی میٹنگ نہیں بلا رہے۔ مجبوراً سب اپنے طور فیصلے کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے طور پر بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ قومی یکجہتی اور مشترکہ اقدامات کا فقدان ہے۔ اس عدم توجہی کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ آج تین ماہ ہونے کو آرہے ہیں ہمارے ڈاکٹرز، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے پاس وہ مکمل حفاظتی لباس تو کجا جو دیگر ممالک میں موجود ہے اس سے کہیں کمتر درجے کا حفاظتی لباس بھی موجود نہیں ہے۔ ایک اسپتال میں ڈاکٹرز ہاتھوں پر پلاسٹک شاپرز لپیٹ کر مریضوں کو دیکھ رہے ہیں۔ اب کہیں جاکر آرڈرز کیے جارہے ہیں۔ مشکل لمحات دراصل قیادت کا امتحان ہوتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان جس میں مکمل ناکام ہوگئے ہیں۔ ان کے پاس کچھ نہیں سوائے تکبر، انا، ضد، ہٹ دھرمی اور بے خبری کے۔