بمبئی گروپ: دنیا کا نایاب ترین بلَڈ گروپ

1158

کسی بھی حادثے کے دوران ایک شخص کا کافی خون بہہ جاتا ہے جس کے بعد اُسے خون کی ضرورت پڑتی ہے لیکن انسان کا جسم ہر دوسرے انسان کا خون قبول نہیں کرتا۔ خون دینے والے شخص کا پہلے بلَڈ گروپ چیک کیا جاتا ہے کہ آیا اس کا بلَڈ گروپ متاثرہ شخص کے بلَڈ گروپ سے میچ کرے گا یا نہیں یا دوسرے الفاظ میں قبول کرے گا یا نہیں۔

بلَڈ گروپ کی ٹیسٹنگ حساس ہوتی ہے کیونکہ چھوٹی سی غلطی کے باعث مریض کو غلط بلَڈ گروپ کا خون لگ جاتا ہے جس کی وجہ سے اُس کا جسم اُس خون کے خلاف لڑںے میں اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور مریض موقع پر ہی ہلاک ہوجاتا ہے۔

طبی ماہرین نے بلَڈ گروپوں کی کئی اقسام دریافت کر لی ہیں اور عام طور پر اسپتالوں میں ہر قسم کا بلَڈ گروپ باآسانی دستیاب ہوتا ہے، اگر نہیں تو دوسرے اسپتالوں سے اس کی فراہمی کا انتظام کیا جاتا ہے لیکن ایک بلَڈ گروپ ایسا ہے جو دنیا کا نایاب ترین بلَڈ گروپ ہے اور اُس کا نام Bombay ہے۔

اس بلَڈ گروپ کی پہلی دریافت بھارت کے شہر بمبئی (نیا نام ممبئی) کے ایک باسی میں 1952 میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد دوسرا کیس 2009 میں سامنے آیا۔ایک تجزیے کے مطابق ہر 10 لاکھ افراد میں سے 4 لوگوں کا بلَڈ گروپ Bombay ہوتا ہے۔

اس بلَڈ گروپ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے خون کے صرف red cells دنیا کے کسی بھی شخص کو دئیے جاسکتے ہیں تاہم اس Bombay بلَڈ گروپ کے حامل شخص کو سوائے Bombay کے اور کوئی بلَڈ گروپ کا خون نہیں دیا جاسکتا کیونکہ دوسرے افراد کے خون میں جو تریاق چہ (Antibodies) یونگی وہ اس کے خون کے خلاف متحرک ہوکر اس کی جان لے سکتی ہیں۔

ایک بلَڈ گروپ کے بننے میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں لیکن Bombay گروپ کی ساخت ان سب سے مختلف ہوتی ہے جو کہ مندرجہ ذیل خاکے مین دیکھا جاسکتا ہے: