وہ فرعون، جو ایک خدا پر ایمان رکھتا تھا

2306

فرعون، مصر کے بادشاہوں میں سے کسی ایک کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ان سب بادشاہوں کا لقب ہوا کرتا تھا جیسے حضرت موسیٰ علیہ سلام کے زمانے میں جو فرعون تھا اس کا نام رامسس 2 تھا۔

قدیم مصر میں جتنے بھی فرعون آئے ان سب کا، اور اُس وقت کے مذہبی علما اور عوام کا ایک ہی مذہب رہا اور وہ یہ کہ ایک سے زائد خدائوں کو پوجنا اور ان کی عبادت کرنا لیکن قدیم مصر کی تاریخ میں اور حضرت موسٰی علیہ سلام سے بھی پہلے واحد فرعون Akhenaten گزرا ہے جس نے مصر کی صدیوں سے جاری مذہبی ثقافت کو بدلنے کی کوشش کی اور ایک خدا Aten پر ایمان لایا۔

Akhenaten کی پیدائش، مصر پر حکومت کرنے والے اٹھارویں شاہی خاندان ‘Amenhotep’ میں 1380 قبل مسیح میں ہوئی۔ Akhenaten سے قبل اس کا باپ اور دو بھائی تھے۔ چوتھے نمبر پر ہونے کی وجہ سے اس کا نام Amenhotep 4 تھا لیکن بادشاہ بنتے ہی اس نے اپنا نام اپنے خُدا کے نام Aten پر Akhenaten رکھا جو کہ اس کے توحیدی عقائد کی نمائندگی کرتا ہے۔

Akhenaten نے اپنی حکومت کے دوران اپنے خدا Aten کی محبت میں متعدد عبادت گاہوں سمیت ایک شہر بھی تعمیر کیا جس کا نام ‘امارنا’ رکھا گیا.

مصر میں پوجے جانے والے تمام خدائوں میں سب سے بڑا خدا سورج Amun تھا۔ Akhenaten نے Amun سمیت سارے خدائوں کے نقش و نگار، ان کی عبادت گاہوں اور مورتیوں کو مسمار کردیا اور ایک خدا کی عبادت کا پرچار عوام میں کرتا رہا جس کے باعث مصر کے مذہبی علما اس سے نفرت کرنے لگے اور اُس کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔

Akhenaten نے مصر پر 17 سال تک حکومت کی۔ اس کی ایک بیوی اور دو بچے تھے۔ بیوی کا نام نیفرتلی تھا۔  تاریخ میں ملکہ نیفرتلی کو دنیا کی سب سے خوبصورت عورت بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ محققین کے مطابق تاریخ میں یہ واضح نہیں ہے کہ Akhenaten کے بعد کس نے تخت سنبھالا تاہم یہ بات طے شدہ ہے کہ Akhenaten کے بیٹے Tutankhamun سے پہلے دو فرعونوں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔

Akhenaten کی وجہِ موت کے بارے میں تاریخ بہت دھندلی ہے تاہم ماہرین آثار قدیمہ کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اُس وقت کے مذہبی علما Akhenaten کی موت کے زمہ دار ہیں کیونکہ وہ اس فرعون سے اس کے توحیدی عقائد کی بنا پر نفرت کرنے لگے تھے اور غالب گمان یہی ہے کہ Akhenaten کو ایک سازش کے تحت جان سے مارا گیا ہو۔

فرعونوں کی حکومتوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو حیرت انگیز طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ جتنے فرعون گزرے ہیں ان پر مذہبی علمائوں کا تسلط رہا ہے سوائے Akhenaten کے.

اُس وقت کے موجودہ علما اور بعد میں آنے والے تمام فرعونوں کی Akhenaten سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اس کی تمام تعمیر کردہ عبادت گاہوں اور شہر امارنا کو تباہ و برباد کردیا۔ انہوں نے صدیوں سے جاری مذہبی عقائد کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں Akhenaten کا نام گزرے ہوئے فرعونوں کی فہرست سے نکال دیا اور اس کو بادشاہ کے بجائے دشمن قرار دیا۔

Akhenaten کی موت 1336 قبل مسیح کے آس پاس ہوئی.