کرد ملیشیا کیخلاف آپریشن کیوں؟

618

ترک صدر رجب طیب اِردوان نے شمال مشرقی شام میں محفوظ علاقے کے قیام اور دہشت گرد تنظیم داعش سمیت کرد ملیشیا کے خلاف آپریشن کے لیے فوجی کارروائی کا اعلان کردیا ہے۔

پسِ منظر

 ترکی نے 1998 میں شام کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر شام نے اپنی سرزمین سے ترکی کے کرد باغی رہنما عبداللہ اوجلان کو بے دخل اور ترک کرد رہنمائوں کی مدد کرنا بند نہیں کی تو ترکی فوجی کارروائی کرے گا۔

 اس دھمکی کے بعد ترکی کے اس وقت کے صدر سلیمان دیمرل اور سابق  شامی صدر حافظ الاسد کے درمیان ترکی کے شہر  آدنا میں معاہدہ طے پایا تھا جس میں دونوں ممالک نے مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نکالنے پر اتفاق کیا تھا۔

ترکی شام کے شمالی علاقے کو محفوظ بنا کرترکی میں موجود 20 لاکھ شامی مہاجرین کو وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے۔اس علاقے میں موجود شامی کرد ملیشیا (وائے پی جی)جسے امریکی حمایت بھی حاصل رہی ہے کو ترکی دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور  اسے  علیحدگی پسند  اسیر کرد رہنما عبداللہ اوجلان کی سیاسی جماعت کردش ورکر ز پارٹی کا عسکری ونگ قرار دیتا ہے۔

2014 میں امریکی صدر براک اوباما نے پہلی مرتبہ داعش کے خلاف شام میں فضائی آپریشن شروع کیا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر شامی خانہ جنگی میں باضابطہ طور پر حصہ لیا۔امریکی فوجی داعش کے خلاف لڑنے کیلئے شامی کردش ملیشیا اور جنگجوں کو تربیت دیتے رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں شام میں کرد ملیشیا کے خلاف آپریشن کے ترکی کے فیصلے کے بعد امریکا نے اپنی فوجیں شام ترک سرحدی علاقے سے پیچھے ہٹانیکا اعلان کیا تھا جس پر کرد ملیشیا نے امریکا پر پِیٹھ میں چھرا گھونپنے کا الزام عائد کیاتھا۔

ترکی نے تازہ اقدام سے ایک روز قبل ہی شامی عراقی سرحد پر کارروائی کی تھی اور اس حوالے سے بتایا تھا کہ اس کا مقصد کُرد فورسز کو شام کے شمالی حصے کی طرف جانے سے روکنا تھا، جہاں وہ اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش میں ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اِردوان کے کمیونی کیشن ڈائریکٹر فخرتن التون نے کرد ملیشیا وائی پی جی کے جنگجوؤں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ملیشیا سے الگ ہو جائیں ورنہ انقرہ انہیں داعش کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ بننے نہیں دے گی۔