آرمی چیف کا دورہ افغانستان کامیاب دورہ تھا،خواجہ آصف

529

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا دورہ افغانستان کامیاب دورہ تھا‘ اس دورے سے ایک شروعات ہوئی ہے‘ امن کیلئے اس طرح کے رابطے جاری رہیں گے‘ پاکستان کی سرحد کے ساتھ افغانستان کے چار پانچ صوبوں میں بدخشاں تک داعش کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے‘ پاکستان نے آپریشن ضرب عضب سے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کردیا‘ افغانستان میں مفاہمتی عمل میں افغان حکومت کا کردار سب سے اہم ہے‘ پاکستان‘ چین اور امریکہ کا کردار سہولت کار معاون کا ہے‘ پاکستانی حکومت کا کردار طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے، یہ مذاکرات چار فریقی ہونگے‘ 16 جنوری کو مذاکرات کا پہلا مرحلہ ہوگا جس میں ذمہ داریوں کا تعین کیا جائے گا‘ طالبان مفاہمتی عمل کیلئے مذاکرات پر تیار ہیں۔

ایوان بالا میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے دورہ افغانستان کے حوالے سے چیئرمین کی رولنگ پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان اور طالبان کے درمیان اب تک مذاکرات کے دو مرحلے ہوئے ہیں تاہم تعلقات میں غلط موڑ آنے کے بعد ان کے درمیان مفاہمتی عمل تعطل کا شکار ہوگیا۔ افغانستان کے صدر کی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات اور ان کی پیرس میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے دوران افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کرنے اور تعلقات میں تعطل دور کرنے پر اتفاق کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ افغانستان کا بنیادی ایجنڈا افغانستان میں قیام امن کے لئے افغان قیادت میں اور افغانوں کے ذریعے مذاکرات کا انعقاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مفاہمتی عمل میں افغان حکومت کا کردار سب سے اہم ہے‘ پاکستان‘ چین اور امریکہ کا کردار سہولت کار معاون کا ہے۔ پاکستانی حکومت کا کردار طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔ یہ مذاکرات چار فریقی ہونگے‘ 16 جنوری کو مذاکرات کا پہلا مرحلہ ہوگا جس میں ذمہ داریوں کا تعین کیا جائے گا۔ افغانستان‘پاکستان‘ چین اور امریکہ مذاکرات کے دوران مشترکہ ذمہ داری ادا کریں گے۔ ایک دوسرے کو اس کے نتائج سے آگاہ رکھیں گے اور اس کے نتائج کے برابر کے ذمہ دار ہونگے۔ پاکستان سمیت پورے خطے کا امن افغانستان میں امن سے منسلک ہے۔ ہم طالبان پر مفاہمتی عمل میں شامل ہونے کے لئے دباﺅ ڈالیں گے۔ طالبان کو اپنی سرزمین سے کسی دوسرے ملک میں کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے جوکہ پاکستان اور افغانستان کے مفاد کے خلاف ہو۔ طالبان کو پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان میں کارروائیاں نہیں کرنے دیں گے۔ مفاہمت کرنے والے طالبان سے پہلے بات چیت کی جائے گی۔ طالبان مفاہمتی عمل کیلئے مذاکرات پر تیار ہیں۔ گزشتہ مرحلوں میں ہمیں کہا گیا تھا کہ طالبان سے جب بھی مذاکرات ہوں تو حقانی گروپ کو بھی اس کا حصہ ہونا چاہیے۔ افغانستان کا موقف تھا کہ حقانی گروپ کی شمولیت کے بغیر مذاکرات بے معنی ہوں گے۔ طالبان کی اکثریت مفاہمت چاہتی ہے تاہم کچھ لوگ مفاہمت کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کی وجہ سے مفاہمتی عمل روکا نہیں جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مفاہمت کی حمایت میں علماءسے فتوے لئے جائیں گے۔ اسلامی تعاون تنظیم کی سطح پر ان فتوﺅں کی توثیق کرائی جائے گی تاکہ مفاہمتی عمل پائیدار ہو۔ پاک افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ میں اضافہ پر اتفاق کیا گیا۔ ادارہ جاتی سطح پر اس حوالے سے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے سرحد غیر محفوظ ہے۔ ہم بہتر روابط کے ذریعے سرحد کے آرپار واقعات کی روک تھام کے لئے بارڈر مینجمنٹ میں بہتری لا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ طے پایا کہ کور کمانڈرز‘ میجر جنرل سطح پر ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطہ ہوگا۔ رابطے منقطع ہونے سے صورتحال خراب ہوتی ہے۔ اس لئے رابطوں کو بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ انٹیلی جنس اداروں کے حکام بھی رابطے رکھیں گے۔ یہ بھی طے پایا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چیف آف آرمی سٹاف کے دورے سے ایک شروعات ہوئی ہے‘ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا مقصد بھی افغانستان میں قیام امن تھا۔ ہمارے خیال میں آرمی چیف کا دورہ کامیاب تھا۔ اس طرح کے رابطے جاری رہیں گے تاکہ امن کے لئے جو عمل شروع ہوا ہے وہ جاری رہے۔ امن سب کی ضرورت ہے تاکہ جو مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکے وہ امن سے حاصل کئے جاسکیں۔ دونوں اطراف کو اس سلسلے میں احساس اور ادراک ہے‘ ہماری سرحد کے ساتھ چار پانچ صوبوں میں بدخشاں تک داعش کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہم ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔وزیر دفاع نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں نے افغانستان میں پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں۔ ہم نے آپریشن ضرب عضب سے پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں تباہ کردی ہیں اور ان کا خاتمہ کردیا ہے۔